1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی ایل پی کی طرح کیا ديگر تنظیموں سے بھی بات چیت ہونی چاہیے؟

عبدالستار، اسلام آباد
8 نومبر 2021

وفاقی حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر دوسری تنظیموں کو بھی رعایت کیوں نہیں دی جا سکتی۔

https://p.dw.com/p/42jhO
Pakistan Streik Frankreich TLP Protest
تصویر: AFP/Getty Images

پاکستانی حکومت کے کچھ حلقوں نے چند روز قبل اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سے بھی بات چیت کے ليے تیار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کچھ عرصے پہلے اس کا اعتراف کیا کہ افغان طالبان اس حوالے سے پاکستان کی معاونت کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان پر الزام ہے کہ اس کی جانب سے کيے جانے والے دہشت گردانہ حملوں میں تیس ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہوئے اور ملک کو اربوں کا نقصان بھی ہوا۔

تحریک لبیک سے معاہدے پر پاکستان میں تنقید کا طوفان

ٹی ايل پی پر پابندی ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، عمران خان

پاکستان میں ایک دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟

ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت کا مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی طرف ایک رویہ ہے جب کہ قوم پرست علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف دوسرا رویہ۔ اب ملک کے کئی حلقوں میں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ اگر تحریک لبیک پاکستان کو رعایت دی جا سکتی ہے، تو ایم کیو ایم لندن اور قوم پرست علیحدگی پسند تنظیموں سے بھی مذاکرات کیے جانے چاہیيں تاکہ ملک میں بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکے۔

بلوچ قوم پرستوں سے بات چیت

سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے حامی ہیں کہ بلوچ مسلح گروپوں سے بات چیت کی جانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم ہمیشہ سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ ان گروپوں سے بات چیت کرنی چاہیے اور ناراض عناصر سے بات چیت کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جانا چاہیے۔ جب ہم اقتدار میں تھے تو ہم نے کوشش کی تھی کہ ان سے بات کریں اور مذاکرات شروع بھی کيے گئے، لیکن بدقسمتی سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن اب بھی کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جو بات چیت کے ذریعے حل نہ کیا جا سکے۔‘‘

ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ جب ان کی حکومت نے مذاکرات شروع کیے تھے تو ناراض اور مسلح گروپوں کے سامنے صرف یہ شرائط پیش کی گئيں کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کریں اور نہ ہی اس کے خلاف ہتھیار اٹھائيں۔

تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہرے

ایم کیوایم لندن

ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور پی ایس پی کے سابق سیکریٹری جنرل رضا ہارون کا کہنا ہے کہ اگر تحریک لبیک پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کی جا سکتی ہے تو ایم کیو ایم لندن سے بات چیت کیوں نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے الطاف حسین اور ان کی جماعت سے اختلافات ہیں لیکن یہ بات تو حقیقت ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ رہے ہیں۔ ان پر ابھی تک جو بھی الزامات لگے ہیں وہ صرف الزامات کی حد تک ہیں یہاں تک کہ میجر کلیم کیس میں بھی الطاف حسین کو بری کر دیا گیا تھا۔ تو جس طرح دوسری تنظیموں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائيں کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کریں گی، بالکل اسی طرح ایم کیو ایم لندن سے بھی اسی طرح کی یقین دہانی طلب کرنی چاہیے اور انتظامیہ کی طرف سے ان پر جو پابندی لگائی گئی ہے، اس کو ختم کیا جانا چاہيے۔‘‘

رضا ہارون کا کہنا تھا کہ یہ رعایت غیر مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ ''میرے خیال میں الطاف حسین کو بھی اس بات کی وضاحت دینی چاہیے کہ انہوں نے کیوں 22 اگست کو پاکستان مخالف تقریر کی اور سندھو دیش کا نعرہ کیوں لگایا۔ وضاحت اور معافی کے بعد جس طرح دوسری تنظیموں کو اس بات کی اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان کے قومی دھارے میں رہ کر سیاست کریں، بالکل اسی طرح ایم کیوایم کو بھی یہ اجازت ملنی چاہیے۔‘‘

سندھی علیحدگی پسندوں سے بات چیت

بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی ایک علیحدگی پسند تحریک چل رہی ہے، جس کی قیادت جئے سندھ کے ایک دھڑے کے رہنما شفیع برفت کر رہے ہیں۔ سندھو دیش لبریشن آرمی کے نام سے جانی جانے والی عسکریت پسند تنظیم نے صوبے میں کئی دہشت گردانہ حملے کيے ہيں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعوی ہے کہ اس تحریک سے نمٹنے کے ليے ریاست نے طاقت کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے صوبے میں جبری طور پر افراد کو گمشدہ بھی کیا گیا۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بخشل تھلو کا کہنا ہے کہ ریاست کی نظر کرم صرف پنجاب پر ہی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''سندھ میں بات چیت سے پہلے ساز گار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ کم از کم ریاست یہ تو کر سکتی ہے کہ سیاسی کارکنان کو جبری طور پر گمشدہ نہ کرے۔ ان کو اذیت دے کر پاگل نہ بنائے یا ان کی مسخ شدہ لاشیں نہ پھینکی جائيں۔ تو پہلے حالات ساز گار کرنے پڑيں گے۔‘‘

 پی ٹی ایم اور ٹی ایل پی

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم اور ٹی ایل پی کا موازنہ کیا جاسکتا ہے لیکن ٹی ایل پی کا موازنہ بلوچ و سندھی علیحدگی پسندوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی اس کا موازنہ ایم کیو ایم لندن سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان تینوں جماعتوں نے ہتھیار اٹھائے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کے ٹی ایل پی نے بلوچ قوم پرستوں، سندھی قوم پرستوں یا ایم کیو ایم لندن کی طرح ہتھیار نہیں اٹھائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''تاہم ٹی ایل پی کا موازنہ پی ٹی ایم سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ پی ٹی ایم نے بھی اپنی تحریک کو پرامن رکھا۔ تو اگر حکومت نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت، جس کی شرائط ابھی تک عوام کو نہیں پتا، ٹی ایل پی سے پابندی اٹھا لی ہے، تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی کہ حکومت پی ٹی ایم کو سیاسی کام کرنے سے روکے۔‘‘

پابندیوں کی تاریخ

واضح رہے کہ پاکستان میں مختلف تنظیموں پر پابندی لگانے کی روایت پرانی ہے۔ پچاس کی دہائی میں پنڈی سازش کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی۔ ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا اور جنرل مشرف کے دور میں درجنوں مذہبی، فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی، جن میں جیش محمد اور لشکر طیبہ سر فہرست تھیں۔

دہشت گردی ختم، اب کہانی کچھ اور ہے