1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ کی تعمیر نو کا ’عرب منصوبہ‘ کیا ہے؟

18 فروری 2025

مصر، فلسطینیوں کو غزہ پٹی سے زبردستی نکالے بغیر اس کی تعمیر نو کا منصوبہ تیار کر رہا ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کا جواب ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اس علاقے سے بے دخل کر دینا ہے۔

https://p.dw.com/p/4qgkN
غزہ سٹی، جو تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے
مصری حکام نے کہا کہ ''عرب منصوبے‘‘ میں تین مرحلوں پر مشتمل تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو نکالے بغیر پانچ سال تک کا وقت لگے گاتصویر: Jehad Alshrafi/AP/picture alliance

مصر کے سرکاری اخبار الاحرام نے کہا کہ اس ''عرب منصوبے‘‘ میں غزہ کے اندر ''محفوظ علاقے‘‘ قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جہاں فلسطینی ابتدائی طور پر رہ سکیں گے، جبکہ مصری اور بین الاقوامی تعمیراتی کمپنیاں غزہ پٹی کے ملبے کو ہٹا کر بنیادی ڈھانچہ دوبارہ تعمیر کریں گی۔

دو مصری حکام، عرب اور مغربی سفارت کاروں کے مطابق مصر اس حوالے سے نہ صرف یورپی ممالک بلکہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی بات چیت میں مصروف ہے۔ ایک مصری عہدیدار اور ایک عرب سفارت کار نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ وہ تعمیر نو کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں، جس میں غزہ کی تعمیر نو پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد بھی شامل ہے۔

عہدیداروں اور سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس منصوبے کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ اس تجویز پر ابھی بات چیت جاری ہے۔

صدر ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟

مصر کی جانب سے یہ تجویز امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے بعد سامنے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے غزہ کے تقریباً 20 لاکھ  فلسطینیوں کو مصر یا اردن منتقل کرنے کا کہا تھا، جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے بعد امریکہ غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھال لے گا۔

فلسطینیوں نے بڑے پیمانے پر کہا ہے کہ وہ اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے، جبکہ مصر، اردن، قطر اور سعودی عرب نے بھی صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق یہ منصوبہ جبری بے دخلی کے مترادف ہے، جو ایک ممکنہ جنگی جرم ہے۔ یورپی ممالک نے بھی بڑے پیمانے پر ٹرمپ کے منصوبے کی مذمت کی ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس خیال کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس پر عمل درآمد کی تیاری کر رہا ہے۔

تباہ حال غزہ سٹی کا ایک منظر
مصری حکام نے کہا کہ ''عرب منصوبے‘‘ میں تین مرحلوں پر مشتمل تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو نکالے بغیر پانچ سال تک کا وقت لگے گاتصویر: Jehad Alshrafi/AP/picture alliance

عرب ممالک کا منصوبہ اور امریکی ردعمل

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے، جو پیر 17 فروری کو سعودی عرب میں تھے، کہا ہے کہ امریکہ متبادل تجاویز سننے کے لیے تیار ہے۔ قبل ازیں روبیو نے جمعرات کو ایک امریکی ریڈیو پر کہا تھا اگر عرب ممالک کے پاس کوئی بہتر منصوبہ ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔

مصر کے الاحرام اخبار نے کہا کہ یہ ''عرب منصوبہ امریکی صدر ٹرمپ کی منطق کی تردید اور غزہ پٹی کے جغرافیائی اور آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے کسی بھی دوسرے تصور یا منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔‘‘

غزہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے کیوں کہ مارچ کے اوائل میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ختم ہو جائے گا۔ اسرائیل اور حماس کو اب دوسرے مرحلے پر بات چیت کرنا ہو گی، جس کا مقصد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تمام باقی ماندہ اسرائیلی افراد کی رہائی، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلاء اور طویل مدت تک جنگ کو روکنا ہے۔

غزہ کا مستقبل کیا ہو گا؟

غزہ کی تعمیر نو کے کسی بھی منصوبے کو دوسرے مرحلے کے معاہدے کے بغیر نافذ کرنا ناممکن ہو گا، جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ طویل المدتی سطح کے لیے غزہ پر حکومت کون کرے گا؟ اسرائیل اس علاقے میں ایک سیاسی یا فوجی قوت کے طور پر حماس کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر حماس ہی غزہ کی انچارج ہوئی تو یہ امکان کم ہی ہو گا کہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان غزہ کی تعمیر نو میں حصہ ڈالیں گے۔

غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کی کوششوں میں شامل دو مصری عہدیداروں کے مطابق ان کی تجویز یہ ہے کہ ایک ایسی مرکزی فلسطینی انتظامیہ قائم کی جائے، جو اس پٹی کو چلانے کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کی کوششوں کی نگرانی کرے اور وہ حماس یا فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ منسلک نہ ہو۔

عرب فورس کی تعیناتی کا معاملہ

غزہ میں عرب فورس کی تعیناتی کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر ایک مصری اہلکار اور ایک عرب سفارت کار نے کہا کہ عرب ممالک صرف اُسی صورت میں متفق ہوں گے، جب ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی ''واضح راستہ‘‘ موجود ہو گا۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کسی بھی فلسطینی ریاست کے ساتھ ساتھ حماس یا مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے غزہ پر حکمرانی کے لیے کسی بھی کردار کو مسترد کر دیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کوئی متبادل بھی پیش نہیں کیا۔

حماس اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار

دریں اثنا حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے اتوار کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کا گروپ حماس کی شرکت کے بغیر فلسطینی اتحاد کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے یا یہ کہ اس علاقے کو چلانے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی ایک کمیٹی بنائی جائے۔

حماس کے عسکریت پسند
دریں اثنا حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار ہےتصویر: Ramadan Abed/REUTERS

مغربی ممالک 'عرب منصوبے کے ساتھ‘

ایک مغربی سفارت کار نے بتایا کہ فرانس اور جرمنی نے عرب ممالک کے اس خیال کی حمایت کی ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے کی جوابی تجویز پیش کی جائے۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس ماہ کے شروع میں فرانسیسی صدر کے ساتھ ایک فون کال میں اپنی حکومت کی کوششوں پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔

مصری حکام میں سے ایک نے بتایا کہ مصری وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ اور یورپی یونین کے دیگر حکام کو بھی اس منصوبے سے آگاہ کیا۔

دو مصری حکام اور ایک عرب سفارت کار کے مطابق مصر، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے حکام اس ہفتے ریاض میں ہونے والے ایک اجتماع میں مصر کے اس منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے اور پھر رواں ماہ کے آخر میں عرب سربراہی اجلاس کے موقع پر اسے متعارف کرایا جائے گا۔

غزہ میں کتنی تباہی ہوئی ہے؟

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً ایک چوتھائی ملین مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ سڑکیں اور 80 فیصد سے زیادہ صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے یا یہ تباہ ہو چکی ہیں۔ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 30 بلین ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ مکانات کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 16 بلین ڈالر ہے۔

مصری حکام نے کہا کہ ''عرب منصوبے‘‘ میں تین مرحلوں پر مشتمل تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو نکالے بغیر پانچ سال تک کا وقت لگے گا۔ دو درجن سے زیادہ مصری اور بین الاقوامی فرمیں ملبہ ہٹانے اور پٹی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں حصہ لیں گی۔ حکام نے کہا ہے کہ تعمیر نو سے غزہ کی آبادی کو دسیوں ہزار نوکریاں بھی ملیں گی۔

ا ا / ا ب ا، ر ب (اے پی)