يونان سے مزيد پاکستانی ملک بدر
8 اپریل 2016يونانی جزيرے ليسبوس کے ايک پوليس ذرائع کے مطابق آٹھ اپريل کی صبح پينتاليس پاکستانی مہاجرين کو ايک کشتی پر بٹھا کر ترکی بھيج ديا گيا ہے۔ اطلاعات ہيں کہ اس دوران امدادی تنظيموں سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں نے ان پناہ گزينوں کی ملک بدری کے عمل کو روکنے کی کوششيں کيں تاہم وہ ناکام رہے۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق تين پناہ گزينوں نے احتجاج کرتے ہوئے پانی ميں چھلانگ لگا دی تھی تاہم انہيں کوسٹ گارڈز نے واپس کشتی پر سوار کرا ديا۔
قبل ازاں اس ہفتے کے آغاز پر پير کے روز دو سو مہاجرين کے پہلے گروپ کو يونان سے ترکی بھيجا گيا تھا۔ ان ميں زيادہ تر وہ پناہ گزين شامل تھے جنہوں نے يونان ميں اندراج نہيں کرايا تھا۔ تاہم بعد ازاں مہاجرين کی ايک بڑی تعداد نے يونان بدری سے بچنے کے ليے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرانا شروع کر ديں جس کی وجہ سے ملک بدريوں کا يہ عمل کچھ روز کے ليے ملتوی کر ديا گيا تھا۔
جمعے سے ملک بدری کے عمل کی بحالی پر تقريباً تيس افراد نے ليسبوس پر احتجاجی مظاہرہ بھی کيا۔ لوگ ’ملک بدرياں روکو‘ اور يورپی يونين شرم کرو‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور مہاجرين کی آزادی کا مطالبہ بھی کرتے دکھائی دیے۔ اطلاعات کے مطابق آج ہی 80 مزيد پناہ گزينوں کو ملک بدر کيا جائے گا۔
يہ امر اہم ہے کہ اٹھارہ مارچ کو طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے تحت يونان سے ملک بدر کيے جانے والے ہر تارک وطن کے بدلے ترکی ميں موجود ايک شامی پناہ گزين کو يورپ منتقل کيا جائے گا۔ اس کے بدلے ترکی کو مالی معاونت فراہم کی جانا ہے اور ترک شہريوں کے ليے يورپی يونين ميں بغير ويزے سفر کی سہوليات بھی دی جانا ہيں۔ انسانی حقوق سے منسلک تنظيميں اس معاہدے سے نالاں ہيں۔ ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق ترکی کو ان مہاجرين کے ليے محفوظ ملک مانا نہيں جا سکتا۔ اس ضمن ميں ہونے والی ايک اور پيش رفت ميں اسپين کی ايک انتہائی بائيں بازو کی جماعت نے جمعرات کو قائم مقام وزير اعظم ماريانو راخوائے پر ’انسانيت کے خلاف جرائم‘ کی شکايت درج کرا دی ہے۔