1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يمن ميں قحط سے انسانی جانوں کے ضياع کا خدشہ ہے، اقوام متحدہ

عاصم سلیم
9 نومبر 2017

اقوام متحدہ نے خبردار کيا ہے کہ سعودی عرب کی یمنی ناکہ بندی کے سبب اس عرب ملک ميں قحط اور اس سے کئی ملين انسانوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ اس ادارے نے رياض حکومت پر زور ديا ہے کہ يمن کی ناکہ بندی فوری طور پر ختم کی جائے۔

https://p.dw.com/p/2nKXZ
Jemen Unterernährung
تصویر: Reuters/A. Zeyad

اقوام متحدہ ميں انسانی بنيادوں پر امداد سے متعلق ادارے سربراہ سيکرٹری جنرل مارک لو کوک نے متنبہ کيا ہے کہ اگر يمن کی ناکہ بندی ختم نہ کی گئی، تو وہاں شدید قحط کی صورتحال پيدا ہو گی، جس کی تاريخ ميں مثال نہیں ملے گی اور اِس کے متاثرين کی تعداد کئی ملين ہو سکتی ہے۔ لوکوک نے يہ بيان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  میں دیا۔ بعد ازاں پندرہ رکنی سکيورٹی کونسل نے بھی سعودی قيادت ميں قائم عسکری اتحاد سے مطالبہ کيا کہ يمن کے ہوائی اڈے اور بندرگاہيں کھولی جائيں تاکہ جنگ سے متاثرہ افراد تک امداد کی فراہمی کو يقينی بنايا جا سکے۔

يہ امر اہم ہے کہ پچھلے ہفتے کے اختتام پر يمن کے ایران نواز حوثی باغيوں کی طرف سے سعودی دارالحکومت رياض کی جانب داغے جانے والے ايک ميزائل کے بعد سعودی حکومت نے يمن کے تمام فضائی، زمينی اور بحری راستے بند کرتے ہوئے اس ملک کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ رياض کی طرف داغے گئے ميزائل کو شہر کے ہوائی اڈے کے قريب دفاعی میزائل نظام کے ذریعے تباہ کر ديا گيا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ايران پر تنقيد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران حوثی باغيوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور یہ سعودی عرب کے خلاف عسکری کارروائی کے مساوی ہے۔

سلامتی کونسل کے ارکان نے يمن ميں ابتر انسانی صورتحال پر تشويش کا اظہار کرتے ہوئے تمام بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے کھلنے کی ضرورت پر زور ديا۔ يہ بات اس وقت کونسل کی صدارت کے حامل ملک اٹلی اور اُس کے سفیر سباستيانو کارڈی نے کہی۔

علاوہ ازيں اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے سعودی وزير خارجہ عادل الجبير سے بدھ کو بذريعہ ٹيلی فون گفتگو کی، جس ميں انہيں يہ اشارہ دیا گیا کہ ریاض حکومت ممکنہ طور پر  راستے کھولنے کے بارے ميں غور کر رہی ہے۔ يمن ميں تقريباً سترہ ملين افراد کو خوراک کی ضرورت ہے، جن ميں سے سات ملين کو قحط کا خطرہ لاحق ہے۔ پھیلی ہوئی ہيضے کی وباء کی وجہ سے دو ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔