1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہویتنام

ویتنام: چھوٹے قد والوں کو داخلہ نہ دینے کا فیصلہ

6 جولائی 2024

ویتنام نیشنل یونیورسٹی کے اسکول آف مینجمنٹ اینڈ بزنس کے خیال میں قد کی اونچائی اور کامیابی کے درمیان تعلق اتنا اہم ہے کہ جو لوگ ’بہت چھوٹے‘ سمجھے جاتے ہیں، انہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4hpca
Vietnam Hanoi | Abschlussfeier Universitätsstudenten
ویتنام: چھوٹے قد والوں کو داخلہ نہ دینے کا فیصلہتصویر: Hoang Dinh Nam/AFP/Getty Images

ہنوئی میں واقع  اسکول آف مینجمنٹ اینڈ بزنس (ایچ ایس بی) نے اعلان کیا کہ اس سال داخلہ لینے کے لیے طالبات کا قد کم از کم 1.58 میٹر اور طلبا کا کم از کم 1.65 میٹر ہونا ضروری ہے۔ تاہم پالیسی بیان میں مزید کہا گیا ہے کچھ معاملات میں استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ویتنام کے آن لائن اخبار 'ٹوئی ٹری‘ نے سب سے پہلے ایک آرٹیکل شائع کیا تھا، جس کے بعد سے اس تناظر میں سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔

اب وزارت تعلیم نے یونیورسٹی کو اپنے تقاضوں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے، جس کے بعد ایچ ایس بی نے اپنے داخلے کے معیار کو ایڈجسٹ کیا ہے۔ اس نے اپنے پیش کردہ چار انڈرگریجویٹ پروگراموں میں سے تین کے لیے اونچے قد کی شرط ختم کر دی ہے لیکن یہ اصول اب صرف ایک کورس، مینجمنٹ اینڈ سکیورٹی پر لاگو ہو گا۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے ایچ ایس بی سے رابطہ کیا لیکن ڈی ڈبلیو کے سوالات کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔

اونچا قد اور خود اعتمادی

ایچ ایس بی یہ کہہ کر اپنی شرائط کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسکول کا مقصد سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کے لیے مستقبل کے رہنماؤں اور بہترین مینیجرز کو تربیت دینا ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے طلبہ کو صرف تکنیکی لحاظ سے ہی ماہر نہیں بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی بہتر ہونا چاہیے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ قد کی لمبائی ایک فیصلہ کن عنصر ہے، خاص طور پر اس وقت، جب بات قیادت اور خود اعتمادی کی ہو۔

لیکن کیا واقعی قد کی لمبائی اور خود اعتمادی کے درمیان کوئی براہ راست تعلق ہے؟

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو فرانسیسی شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کا قد 1.66 میٹر، چین کے سابق رہنما ڈینگ سیاؤپنگ کا قد 1.57 میٹر اور سوویت رہنما ولادیمیر لینن کا قد 1.60 میٹر تھا۔

جرمنی کی ایرلانگن نیورمبرگ یونیورسٹی کی ماہر سماجی نفسیات آندریا ابیلے برہیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قد اور خود اعتمادی کے درمیان ''ایک تعلق ہے لیکن یہ نسبتاً انتہائی کمزور اور مبہم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ، یورپ اور مشرقی ایشیا کے متعدد مطالعات سے ثابت ہوا ہے۔ مطالعات کے مطابق اوسط اونچائی سے انتہائی انحراف یعنی انتہائی چھوٹا یا لمبا قد خود اعتمادی پر اثر ڈال سکتا ہے۔ تاہم اس جرمن پروفیسر کے مطابق اوسط قد والے لوگوں کے لیے اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماہر سماجی نفسیات آندریا ابیلے برہیم کا کہنا ہے، ''اگر ایچ بی ایس کی طرف سے ایسی کوئی پابندی لاگو کی جاتی ہے تو یہ یقیناً امتیازی سلوک ہے اور میری نظر میں اسے مسترد کیا جانا چاہیے۔‘‘

قد اور دولت

ایک ایسا ایریا، جہاں اونچے قد کا فائدہ دکھایا گیا ہے، وہ ہے طاقت کا حاصل ہونا۔ بہت سے بین الاقوامی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لمبے قد والے افراد اقتصادی لحاظ سے فائدے میں رہتے ہیں۔ تاہم یہ ایک غلط سماجی تاثر ہے کہ طویل قد والے افراد زیادہ قابل ہوتے ہیں۔ طویل قد اور قابلیت کے درمیان کوئی براہ راست تعلق موجود نہیں۔

آندریا ابیلے برہیم کا خیال ہے کہ تعلیمی ادارے کی ذمہ داری دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنا اور معاشرتی ترقی میں حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''آپ کو اس طرح کے دقیانوسی تصورات سے نمٹنا ہو گا، بصورت دیگر آپ بطور ادارہ صرف ان کو تقویت دے رہے ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ ایچ بی ایس میں داخلے کے لیے اونچے قد کی شرط سائنس اور عقل کے مطابق طلبہ کو تعلیم دینے کے یونیورسٹی کے اصل ہدف کے خلاف ہے۔

ا ا / م م (روڈیون ایبگ ہاؤزن)