1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتپاکستان

وہ لاہور سے لفٹ لے کر موت لینے پہنچی تھی

31 اکتوبر 2022

’’دو کلومیٹر دوڑ کر آئی ہو، تو دو کلومیٹر مزید بھاگ لو‘‘۔ سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کے ان الفاظ نے تھکی ہاری صدف نعیم کے کاندھوں پر لٹکے بستے کے بوجھ کو مزید بھاری کر ڈالا تھا۔

https://p.dw.com/p/4ItRI
رات گئے صدف کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا
رات گئے صدف کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیاتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

30 اکتوبر 2022ء  اتوار کے روز صدف نعیم لاہور سے ایک ساتھی صحافی سے لفٹ لے کر سادھوکی پہنچی تھیں، جہاں انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کا انٹرویو لینے کے لیے کنٹینر کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیا۔ ان کے ساتھ دنیا نیوز کے اخلاق باجوہ اور نیو نیوز کے رپورٹر کاشف سلمان اپنے اپنے  کیمرہ مین کے ہمراہ تھے، جنہوں نے کنٹینر پر موجود تحریک انصاف کی کارکنان یاسمین راشد اور مسرت جمشید چیمہ کو متعد بار ہاتھ ہلا کر کنٹینر پر چڑھنے کی درخواست کی، جسے دونوں کارکنان نے مبینہ طور پر نظر انداز کر دیا۔

 یاد رہے کہ مسرت جمشید چیمہ پاکستان تحریک انصاف کی میڈیا مینجمینٹ کی  ہائی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ دو سے تین کلومیٹر بھاگنے کے بعد دنیا ٹی وی کے رپورٹر نا امید ہو کر سڑک کی ایک جانب بیٹھ گئے جبکہ ان کی جگہ صدف آگے بڑھتی چلی گئیں۔ کنٹینر کی سپیڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ صدف نے اپنے دوڑنے کی رفتار بھی بڑھا دی۔

 اسی اثناء میں انہوں نے کنٹینر پر سوار ہونے کی کوشش کی، یا ان کے قدم لڑکھڑائے اور وہ سڑک پر گر گئیں۔ وہ کنٹینر، جس پر عمران خان سوار تھے، وہی تحریک انصاف کا کنٹینر بڑی بے رحمی سے صدف کو کچلتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور یوں ایک چھوٹے سے نیوز چینل میں کام کرنے والی دو بچوں کی ماں اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔

صدف نعیم کون تھیں؟

میں نے صدف کو پہلی بار چینل فائیو کے میک اپ روم میں دیکھا تھا، جہاں وہ کسی برائڈل کیٹیور ویک میں شرکت سے پہلے اپنا میک اپ کروانے کے لیے پہنچی تھیں۔ میک اپ آرٹسٹ دوران میک اپ صدف کی شخصیت پر مذاق مذاق میں چوٹ بھی کرتا جا رہا تھا اور صدف برا منائے بغیر ہر مذاق پر مسکرائے چلی جا رہی تھی، کسی بھی طنز کے جواب میں اس کے ماتھے پر ایک شکن تک نہ ابھری۔

صدف میرے ساتھ ہی چینل فائیو میں کام کرتی تھیں۔ وہ ایک رپورٹر تھیں اور میں ایک نیوز پروڈیوسر۔ وہ دوسرے رپورٹرز کی طرح فیلڈ سے کام لاتی تھیں اور میرا کام فیلڈ رپورٹرز کے 'بیپرز اور ایز لائیوز‘ کو آن ایئر کرنا تھا۔ وہ  ہر روز صبح سویرے اپنے شوہر کے ہمراہ آتیں اور انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں آکر مجھ سے اپنے اس دن کی اسائنمینٹس پر بات کرتیں۔

صدف چینل فائیو میں کام کرتی تھیں
صدف چینل فائیو میں کام کرتی تھیںتصویر: privat

میں اکثر اپنی ساتھی خاتون پروڈیوسر ثمینہ احمد سے پوچھا کرتی کہ صدف کام تو روزانہ لے کر آتی ہے مگر فیلڈ میں وہ کیسے جاتی ہے؟ کیونکہ میں نے کبھی اسے کسی گاڑی میں فیلڈ جاتے نہیں دیکھا تھا اور ثمینہ نے مجھے بتایا کہ صدف کو ادارے کی جانب سے  ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں دی گئی۔

 بعدازاں کئی کئی مہینے تک اسے تنخواہ سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جنرل اسائنمینٹس کے علاوہ اسے خبریں اخبار کے لیے اشتہارات لانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔ اس کے باوجود ایک کم تنخواہ پر وہ سالہا سال سے اس ادارے میں نوکری کرنے پر مجبور تھیں۔

کبھی کبھار میں صدف کو بڑے غور سے دیکھا کرتی تھی۔ مجھے اس کی خالی آنکھوں میں ایک بہت مجبوراور لاچار سی صدف دکھائی دیتی، جس کے ہاتھ اور پیروں کو لاتعداد ذمہ داریوں کی بیڑیوں نے جکڑ رکھا تھا۔ ایک متنازعہ چینل کے 'تھرڈ کلاس ذہنیت‘ کے لوگوں کی گھٹیا باتوں کو وہ ہر روز سُنتیں، مسکراتیں اور آگے بڑھ جاتیں۔

چینل فائیو کو خیر باد کہنے کے بعد میں نے ایک اور نجی چینل میں بطور فیلڈ رپورٹر جوائن کر لیا۔ رپورٹنگ کے دوران فیلڈ میں میں اور صدف تقریباﹰ ہر روز ملا کرتے تھے، کبھی کسی میڈیا بریفنگ اور کبھی کسی پریس کانفرنس میں۔ صدف ایک آل راؤنڈر کی طرح ہر ڈیپارٹمنٹ میں جاتیں اور چھا جاتیں۔ جہاں دیگر چینل والے اپنی اپنی گاڑیوں اور ڈی ایس اینجیز کے ساتھ پریس کانفرنسز پر پہنچتے، وہیں صدف کبھی رکشہ کرواتیں  اور کبھی حسب معمول لفٹ سے کام چلاتیں اور متعلقہ جگہ پہنچ جاتیں۔

صدف کو فیلڈ میں کام کرنے کے دوران مردوں کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرتا پڑتا۔  قدامت پسند معاشرےکے بہت سے سطحی اور پسماندہ سوچ کے حامل افراد ان کی کردارکُشی کرنے میں ذرا تاخیر نہ کرتے۔ وہ اسے برا بھلا کہتے لیکن صدف خاموشی اختیار کیے رہتیں۔ میں نے اکثر دیکھا کہ پریس کانفرنس کے دوران صحافی مردوں کا ایک مخصوص گروپ انہیں سوال کرنے سے روک دیتا۔

سیاسی جماعتوں کے بنائے گئے میڈیا سیلز میں بھی ایسے بااثر صحافیوں کی اجارہ داری نظر آئی، جو صدف جیسی بے ضرر لڑکی کو دبانے کے لیے جان بوجھ کر جم غفیر میں کمان تھامے طنز کے تیر برساتے جاتے اور یہ بہادر عورت خندہ پیشانی سے اپنے سینے  پر ان تیروں کو سجاتی جاتی اور اف تک نہ کہتی۔

نیو نیوز کی اینکر رپورٹر ربا عروج کے مطابق اپنی موت سے ایک روز قبل انہوں نے صدف کو شاہدرہ کے قریب لانگ مارچ کے ساتھ پیدل چلتے دیکھا۔ بڑی منت سماجت کے بعد پی ٹی آئی کی میڈیا کوارڈینیٹر مسرت جمشید چیمہ نے انہیں انٹرویو کی اجازت  دی۔ روبا کے مطابق ''ایکسلوزیو کے شوق‘‘ میں میڈیا مالکان اپنے مزدور صحافیوں کی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔  یہ میڈیا ہاؤسز نہ تو ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے کے لیے صحافیوں کو سیفٹی ٹریننگ فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں مطلوبہ سہولیات اور ضروریات فراہم کرتے ہیں، جن سے صحافی خود کو محفوظ بنا سکیں۔

روبا کا کہنا ہے کہ ایسے میڈیا مالکان کا بایئکاٹ کرنا چاہیے، جو''میدان جنگ میں صحافیوں کو محاذ‘‘ پر تو بھیج دیتے ہیں لیکن اپنے ملازمین کے تحفظ کا اہتمام نہیں کرتے۔

جابر وقاص بول ٹی وی سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق حادثے میں کافی حد تک پاکستان تحریک انصاف کے میڈیا مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا بھی عمل دخل ہے، جو ہمیشہ اپنے من پسند صحافیوں کو فرنٹ سیٹوں پر رکھتا ہے۔ خاص طور پر، جن صحافیوں کا تعلق بڑے نیوز چینلز سے ہوتا ہے، ان کو آگے بڑھ کر پروٹوکول کے ساتھ قیادت کے انٹرویوز کروا دیے جاتے ہیں جبکہ چھوٹے چینلز کے صحافیوں کو جان بوجھ کر پیچھے رکھا جاتا ہے۔

جابر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مینجمنٹ کو چاہیے تھا کہ لانگ مارچ سے قبل ایک ایسا میکنیزم بناتے، جس میں صحافی اور خاص طور پر خواتین کو اسپیشل فیور دی جاتی اور ایک ہی ساتھ کنٹینر پر سوار کروایا جاتا تاکہ ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست کو چاہیے کہ اس کیس کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں اور حادثے کے مکمل محرکات کا جائزہ لیا جائے۔

سماء نیوز کے سینئیر صحافی قذافی بٹ گزشتہ کچھ عرصے سے  صدف نعیم کے ساتھ پنجاب اسمبلی کی بیٹ کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ واحد صحافی ہیں، جو موت سے لے کر ہسپتال کے مردہ خانے تک صدف کے ساتھ رہے۔

قذافی بٹ بتاتے ہیں، ''کنٹینر پر موجود سینئیر صوبائی وزیر میاں اسلم کو جب صدف نے نیچے سے آواز دے کر کہا کہ ہم تین کلومیٹر سے دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں اور ہمیں کنٹینر پر چڑھنے دیا جائے‘‘۔ اس کے جواب میں میاں اسلم نے کہا، ''دو کلومیٹر اور دوڑیں پھر انٹرویو ملے گا۔‘‘ 

دوسری جانب رات گئے صدف کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ مرحومہ نے سوگواران میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔ صدف کی والدہ  اور والد شدید تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ اللہ ان کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے صدف کے خاندان کو پچاس لاکھ روپے اور پنجاب حکومت کی جانب سے بھی پچاس لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈی جی پی آر کی جانب سے صدف نعیم کے اہل خانہ کو 10لاکھ الگ سے دیے جائیں گے۔ دریں اثناء پنجاب حکومت مرحومہ کے بچوں کی کفالت کرے گی اور ان کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کیے جائیں گے۔

اسے عزت نفس کہیے یا خودداری، صدف کو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نے تمام عمر ایک ناقابل قبول تنخواہ کو قبول کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ اس نے مرتے دم تک اپنی کسمپرسی کسی سے بیان نہ کی اور اپنے سینے میں چھپے غم کے ساتھ وہ اس دنیا سے چلی گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے اسے اپنی جان گنوانا پڑے گی۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔