1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہ افغان جو پیچھے رہ گئے!

2 ستمبر 2021

طالبان سے خوفزدہ ایک لاکھ سے زائد افغان امریکی اتحادی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ گئے، مزید لاکھوں افغان فرار کے لیے پر تولے ہوئے ہیں لیکن کیا مہاجرت ہی حل ہے؟

https://p.dw.com/p/3zoBu
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

افغانستان سے ہجرت کے ہیجان کا دور ابھی تھما نہیں ہے۔ نیٹو فورسز اور امریکی انخلاءکے ساتھ تو افغان باشندوں کی یہ سہولت جڑی تھی کہ وہ اپنے طیارے میں ساتھ بٹھا کر لے جائیں گے، جتنے جا سکتے تھے نکل لیے۔ طالبان اور ان کے سیاسی مخالفین، داعش اور باغی گروہوں کو پیچھے لڑتا چھوڑ کر پورا افغانستان تو امریکی جہازوں میں بیٹھ کر اڑ نہیں سکتا تھا۔

سو اس وقت طیاروں میں بیٹھ کر ہجرت کر جانے والے افغانوں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے، پاکستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک میں ہجرت کرنے والے افغان بھی اگلے کچھ ماہ میں لاکھوں میں  ہو جائیں گے مگر افغانستان میں آزمائش کے مزید دن دیکھنے کے لیے تین کروڑ  اور اسّی لاکھ سے زیادہ افغان رہ گئے ہیں۔

کیا آپ نے کابل سے انخلاء کے دوران جاری ہونے والی اس تصویر کو غور سے دیکھا، جس میں فوجی مال بردار جہاز کے فرش پہ چند سو افغان مرد و خواتین بیٹھے ہیں، بہت سوں  کی گودوں میں بچے ہیں، لگ بھگ سب ہی جوان اور صحت مند ہیں۔

افغانستان کے معذور ہجرت کی اس دوڑ میں کہاں رہ گئے؟ بیمار بھی کیا مہاجر بننے کا یہ تمغہ حاصل کر پائے؟ ان جوانوں کی بوڑھی مائیں کیا ہوئیں؟ ان کے باپ چچا تایا وہ کہاں ہیں؟

قندھار، کابل، مزار شریف، قندوز، ہرات کی گلیوں میں کھیلتے ان بچوں کا کیا ہو گا، جنہیں کئی دہائیوں کی جنگ نے یتیم ابن یتیم بنایا؟ انہیں تو ساتھ لے جانے والا کوئی نہ ملا۔ خواتین کی آرائش کے مراکز میں کام کرنے والی بیوٹیشن لڑکیوں نے تو انخلاء کا کوئی پلان نہیں بنایا تھا، وہ کہاں جائیں گی؟

وہ جو کابل ائیرپورٹ کے باہر سفری بیگ میں پوری زندگی اپنے کاندھے پہ لادے نظر آ رہے تھے وہ تو جوان ہیں، ان میں کئی ہیں، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بہت سے ہیں جنہیں کوئی نہ کوئی ہنر آتا ہے، جنہوں نے افغانستان سے باہر کی دنیا میں کوئی نہ کوئی رابطہ بنا رکھا ہے، جنہیں موہوم سی امید ہے کہ پناہ ملی تو کچھ نہ کچھ کرہی لیں گے۔

اپنا محبوب وطن چھوڑنے کا دکھ

کوئٹہ کے امام بارگاہوں میں افغانستان سے آکر اترنے والے ہزارہ برادری کے چند درجن قافلوں کی گنتی بھی ممکن ہے، وہ ہزارہ جو پیچھے رہ گئے وہ لاکھوں میں ہیں۔ان پیچھے رہ جانے والوں کی تقریبا چار کروڑ کہانیاں ہیں، یہ کہانیاں اب کون سنائے گا؟

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ، مہاجرین کی بحالی، فوڈ پروگرام یا ہیلتھ آرگنائزئشن کا ترجیحی آپریشن مہاجرین ہوں گے، افغانستان کی غیر یقینی سیاسی اور سیکورٹی صورتحال کو بنیاد بناکر افغانستان میں رہ جانے والوں کے نظر انداز ہو جانے کا ڈر ہے۔

اگست سے پہلے تک امریکی اور نیٹو افواج تھیں، اقوام متحدہ کے ادارے بھی فعال تھے، غیر سرکاری ادارے بھی تھے، اپنی سفارتی اور سیاسی غرض سے بھارت بھی موجود تھا، یوں ڈالر کی آمد کا پہیہ چل رہا تھا، خوشحالی تو خیر کیا ہی تھی مگر زندگی ایک ڈگر پہ چل پڑی تھی۔اب اس معاشی خلاء کو کون پر کرے گا؟

پیٹ کی بھوک تو بڑی خطرناک ہوتی ہے یہ نہ طالبان دیکھتی ہے نہ داعش۔ ان افغانوں کی فوڈ سیکورٹی کا کیا پلان ہو گا ؟ بعض طالبان پسندوں سے گزارش ہے کہ اسلام کے ابتدائی ادوار سے موجودہ افغانستان کا موزانہ نہ کیجے، حاملہ عورت پیٹ پہ پتھر باندھ کر خندق نہیں کھود سکتی، نوزائیدہ کو سوکھی روٹی نہیں کھلائی جا سکتی، بڑھتے بچوں کو نان پہ پیاز توڑ کر دینے والا رومانس بھی بس مجاہدین کی کہانیوں میں سنو تو تھرلر لگتا ہے۔

وہ جو کرپٹ افغان حکومت اور عالمی این جی اوز کے تحت اسکول بنے تھے اب ان کو کون چلائے گا، استاد کیا پڑھائے گا، اسے تنخواہ کون دے گا، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی شکل کیا ہوگی؟ ہجرت کرجانے والے کئی سو اساتذہ  اور محقیقین کی جگہ کون لے گا؟

بیماری بھی کسی طالب کے جھڑکنے سے نہیں جائے گی، شفاخانوں کا نظام چلانے کے لیے طبی عملے، ڈاکٹرز ، آلات اور ادویات کی ضرورت ہو گی یہ وہ ضرورت ہے جو بغیر کسی عالمی امداد کے پوری کرنا ممکن نہیں۔ زچہ بچہ صحت مراکز کی بحالی بھی فوری ہونے والے کاموں میں سے ایک ہے۔

چلو مان لیا کہ اب امریکا کی واپسی سے طالبان امریکا آنکھ مچولی ختم ہو گی، امن و امان کی صورتحال طالبان سنبھالیں گے، پولیسنگ کا نظام بہتر ہو گا، جرائم پر سخت اور فوری شرعی سزائیں ملیں گی، کرپشن یہ ہونے نہیں دیں گے اوربے جا ظلم زیادتی نہ کرنے کا وعدہ دے رہے ہیں مگر  زندگی گزارنے کے بنیادی لوازمات کیسے پورے ہوں گے۔ یہ سوال تین کروڑ سے زائد افغانوں کے ماتھے پہ لکھا ہے۔

اتنی یقین دہانیوں کے بعد چلیں ٹھیک ہے مان لیا کہ طالبان بدل گئے۔ بربریت کے دن اب لوٹ کر نہیں آئیں گے مگر  کیا گارنٹی ہے کہ سیاسی عدم استحکام میں ڈولتا افغانستان مستقبل قریب میں سنبھل پائے گا؟

کیا عالمی طاقتیں طالبان کی طاقت توڑنے کے لیے ان کی صفوں میں گروہ بندی نہیں کرائیں گی؟ افغان عوام کو اندرونی سیاسی خلفشار سے نجات ملے گی؟ کیا دیگر ممالک کی انتہاپسند تنظیموں کے لیے افغانستان آسان پناہ گاہ تو  نہیں ہوگا؟

جب تک کہ طالبان ایک مضبوط حکومت چلا نہیں لیتے، افغانستان ایک خود مختار ریاست بن نہیں جاتا، معاشی طور پر استحکام آ نہیں جاتا،ان تمام بے یقینی سے لبریز سوالوں کو جواب مل نہیں جاتا افغانستان میں بسنے  بلکہ یوں کہیں کہ پیچھے رہ جانے والے افغان یونہی سرحدی کراسنگ اور اڑتے جہازوں کو امید کی نگاہوں سے دیکھتے رہیں گے، اور کہانیاں بنتی رہیں گی۔