1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ووہان میں زندگی بہت مشکل ہے‘ ایک پاکستانی طالبہ کی کہانی

7 فروری 2020

چینی شہر ووہان میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے کئی ممالک نے اس شہر سے اپنے شہریوں کو نکال لیا ہے۔ سینکڑوں پاکستانی طلبا و طالبات بدستور ووہان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے وہاں موجود ایک پاکستانی طالبہ سے بات کی۔

https://p.dw.com/p/3XOgx
Symbolbild Coronavirus
تصویر: Reuters/A. Perobelli

''میرا نام حلیمہ ہے اور میں ووہان میں گزشتہ چار برسوں سے زیر تعلیم ہوں۔ کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے ہر کسی کے لیے زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ جب ہمیں شہر کی ناکہ بندی کا علم ہوا، تو یہ خبر ہمارے لیے انتہائی حیران کن اور افسوس ناک تھی کیونکہ ووہان کے بارے میں کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہمیں اپنے کمروں میں بند رہتے ہوئے آٹھ دن ہو گئے ہیں۔ ہر کوئی باہر نکلنے سے خوفزدہ ہے۔ اس بندش کی وجہ  سے ہمیں بہت سری تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

China Coronavirus Shanghai
تصویر: Reuters/A. Song

ایک بڑا مسئلہ کھانے پینے کا بھی ہے۔ ووہان میں چند ہی مارکیٹیں کھلی ہیں، جہاں سے اشیائے خورد و نوش خریدی جا سکتی ہیں۔ مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے گھر سے بہت دور ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کوئی ٹیکسیاں چل رہی ہیں اور نہ ہی بسیں جبکہ زیر زمین ٹرینوں کی آمد و رفت بھی بند ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ کسی بھی مقامی مارکیٹ تک صرف پیدل چل کر ہی پہنچا جا سکتا ہے اور یہ بہت خطرناک بات ہے۔

ساتھ ہی کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کسی ہسپتال کا رخ کرنا بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ تمام ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اور کوئی ڈرگ سٹور بھی کھلا ہوا نہیں ہے۔ سڑکوں پر بہت ہی کم لوگ دکھائی دیتے ہیں اور زندگی دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

شروع میں ہم نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی کوشش تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چینی حکام کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو ووہان سے نکالنا شروع کیا، تو بہت سے طلبہ نے پاکستانی حکومت کو ویڈیو، فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے پیغامات بھی بھیجےکہ اس شہر میں بہت سے پاکستانی طلبہ پھنسے ہوئے ہیں اور ان میں سے چار تو کورونا وائرس سے متاثر بھی ہو چکے ہیں۔ ہمیں حکومت سے بڑی امیدیں ہیں۔ ہم اپنے اہل خانہ سے بھی اگر بات کرتے ہیں، تو مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں یہی بتاتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے اور انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

China Wuhan provisorisches Krankenhaus
تصویر: picture-alliance/dpa/XinHua/Xiong Qi

پاکستانی حکومت  کی جانب سے میرے والد کو یہ پیغام دیا گیا، ''کسی کو بھی ووہان سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ ہم چینی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ پاکستانی طلبا و طالبات اپنے کمروں میں بالکل محفوظ ہیں اور اگر انہیں کہیں اور منتقل کیا گیا، تو ان کے اس وائرس کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی غیر ضروری سفر یا گھر سے باہر نکلنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ چین کے پاس اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بہترین نظام، بہترین آلات اور بہترین بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔

یقیناً یہ ہم سب کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ میں دنیا سے صرف یہی کہنا چاہوں گی کہ سب لوگ دعا کریں اور جتنی ہو سکے، چین کی مدد کریں۔ ایک ایسے شہر میں رہنا بہت مشکل ہے، جس کی مکمل طور پر ناکہ بندی کر دی گئی ہو۔ آپ نہ باہر جا سکتے ہوں اور نہ ہی سورج کی روشنی آپ تک پہنچ رہی ہو۔ اس ڈر سے آپ تازہ ہوا میں سانس بھی نہ لے سکتے ہوں کہ کہیں کوئی وائرس نظام تنفس کے راستے آپ کے جسم میں داخل نہ ہو جائے۔ ان حالات میں ہم سب کو متحد ہو کر اس وائرس کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ صرف چین ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی جنگ ہے۔‘‘

China Peking | Leere Straßen
تصویر: Getty Images/K. Frayer

ولیم ژینگ (ع ا / م م)