وقار کی علامت: افغان باشندوں میں سرپوشی کی رنگا رنگت ثقافت
18 مارچ 2022وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ملک افغانستان میں کئی ذیلی ثقافتیں اور نسلی گروپ دیکھنے میں آتے ہیں اور ان میں باہمی فرق ان کی طرف سے سروں کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات سے بھی واضح ہو جاتا ہے۔ ہندو کش کی اس ریاست میں کسی شہری کی ٹوپی یا اس کا پگڑی پہننے کا انداز اس کی سماجی حیثیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یوں یہ بات بھی نمایاں ہوجاتی ہے کہ کسی افغان باشندے کا تعلق ملک کے کس حصے یا نسلی برادری سے ہے۔
ازبکی ٹوپی
افغانستان میں پہنی جانے والی ازبکی ٹوپی عام طور پر اوپر سے ہموار اوراطراف سے گول ہوتی ہے، جو دیکھنے میں تنگ بھی نظر آتی ہے۔ اسے رنگین اونی کڑھائی سے سجایا جاتا ہے۔ افغانستان کے شمالی علاقوں مثلاﹰ مزار شریف، فاریاب اور جوزجان سے تعلق رکھنے والے افغان باشندے زیادہ تر یہی ٹوپی پہنتے ہیں۔
پشتونوں کی سیاہ پگڑی
پشتون نسل کے افراد اور ان کے کئی ذیلی قبائل افغانستان کی آبادی میں سب سے بڑی نسلی برادری ہیں۔ افغان طالبان کی اکثریت کا تعلق بھی پشتون نسل سے ہی ہے۔ پشتون قبائل سے تعلق رکھنے والے افغان عموما سیاہ پگڑی پہنتے ہیں، جسے ایک ٹوپی کے ارد گرد باندھ کر اس کا ایک سرا کندھے پر کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
دیہی علاقوں کے بہت سے پشتون افغان باشندوں کے مطابق پگڑی ہر پشتون کی پہچان ہوتی ہےاور کوئی لڑکا جب پگڑی پہننا شروع کرے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ایک بالغ مرد بن گیا ہے۔
قندھاری ٹوپی
جنوبی قندھار کے نوجوان عموماﹰ گول اور نرم ٹوپیاں پہنتے ہیں، جن کے پیشانی سے اوپر والے حصے میں ایک خاص کٹاؤ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بوڑھے مرد خصوصاً کسان سروں پر پگڑی کے ساتھ ساتھ کندھے پر ایک چوکور اسکارف نما کپڑا پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
خواتین کی ٹوپیاں
مغربی افغان صوبوں خاص کر صوبے ہرات کے دیہی علاقوں میں اکثر مقامی خواتین بھی چادریں اوڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹوپیاں بھی پہنتی ہیں۔ یہ چادریں ان کے کندھوں کو بھی ڈھانپے ہوئے ہوتی ہیں اور ٹوپیاں چادروں کے اوپر یا ان کے نیچے پہنی جاتی ہیں۔
تاجک نسل کے افغانوں کی پکول
افغانستان کے تاجک نسل کے باشندے عموماﹰ جو ٹوپی پہنتے ہیں، وہ پکول کہلاتی ہے اور بھیڑ کی نرم اون سے بنی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ سخت سردی میں سر کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
ماضی میں ایک بم حملے میں مارے جانے والے طالبان مخالف کمانڈر اور تاجک نسل کے سیاسی رہنما احمد شاہ مسعود بھی پکول ہی پہنا کرتے تھے۔ وہ اور پنجشیر وادی سے ان کے کئی جنگجو ساتھی اس ٹوپی کو اپنے سروں پر بہت پیچھے پہنتے تھے۔
سر ڈھانپنے کا رواج
افغانستان میں خوشی کی کسی تقریب مثلاﹰ شادی بیاہ کے موقع پر بھی مردوں میں سر ڈھانپنے کا رواج عام ہے۔ وہ سرپوشی کے لیے ایک خاص قسم کا کپڑا استعمال کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں گلگت اور اس کے نواحی علاقوں میں دلہا کو گلگتی ٹوپی پہنائی جاتی ہے۔
یہ گلگتی ٹوپی پکول سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اس کے سامنے یا ایک جانب ایک پر بھی لگا ہوا ہوتا ہے، جو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔
قراقلی ٹوپی
قراقل یا قراقلی ٹوپی افغان باشندوں میں سرپوشی کے لیے استعمال ہونے والی ٹوپیوں کی قدیم ترین قسموں میں سے ایک ہے، جو بھیڑوں کے نوزائیدہ بچوں کی اون سے بنتی ہے۔ سرحد پار ہمسایہ ملک پاکستان میں اسے جناح کیپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس ٹوپی کو ملک کے بانی محمد علی جناح نے اپنے لباس کا حصہ بنا کر عوام میں بہت مقبول بنا دیا تھا۔
افغانستان میں سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں یہی ٹوپی خاص طور پر کابل میں عوامی لباس کے ایک بنیادی حصے کے طور پر بہت مقبول ہو گئی تھی۔
ک ش / ر ب (اے ایف پی)