1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیرستان کےبچے اپنا بچپن کھو رہے ہیں

دانش بابر31 جنوری 2014

دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے جاری اس بے نتیجہ جنگ سے نہ صرف ہزاروں اموات ہوئی ہیں بلکہ قبائلی علاقوں کے بچے بھی ان حالات کی وجہ سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔

https://p.dw.com/p/1B047
تصویر: DW/D. Baber

پاکستان کے قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کہیں بم دھماکے، فوجی آپریشن یا ڈرون حملے ہوتے ہیں تو کہیں بچوں کے سکول دہشت گردی کے نذر ہوجاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان واقعات کے چھوٹے بچوں کے ذہنوں پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور حالات کے پیش نظر وہ گھروں کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔


جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے بارہ سالہ نوراللہ، جو ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنی پڑھائی کو ہمیشہ کے لئے خیرآباد کہہ چکے ہیں، کو ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں دوسرے عام لوگوں کی طرح وہ بھی دہشت گردی کا نشانہ نہ بن جائے۔ اس بچے کا کہنا ہے کہ اس نے نا صرف سکول جانا چھوڑ دیا ہے بلکہ اب کھیل کود کے لئے بھی کم ہی باہر نکلتا ہے ’’ ہمارے علاقے کے حالات بہت خراب ہیں، اب ہم لوگ سکول نہ تو جاسکتے ہیں اور نہ ہی باہر کھیلنے جاتے ہیں، پہلے تو ہم گراونڈ میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے تھے لیکن اب دھماکوں کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔‘‘

Pakistan Anschlag Terroranschlag Waziristan
شیلنگ اور ڈرون حملوں سے مساجد اور اسکول تباہ ہو چکے ہیںتصویر: Reuters

نوراللہ کا مزید کہنا ہے کہ اگر چہ بہت عرصہ ہو چکا ہے کہ وہ سکول نہیں جارہا لیکن پھر بھی اگر ان کے علاقے کے حالات معمول پر آگئے تو وہ دوبارہ اپنی پڑھائی شروع کر دےگا۔
شمالی وزیرستان کے رہائشی جانس خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موجودہ حالات کی وجہ سے ان کے بچے ذہنی مریض بن چکے ہیں اور ان کے زندگی کا ہر ایک پہلو متاثر ہوا ہے۔ خود ایک باپ ہوکر ان کو ہر وقت یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے ذیادہ دیر باہر نہیں رہنے دیتے۔ انہوں نے بتایا ’’ بچوں کے ذہن میں یہ ڈر بیٹھا ہوا ہے کہ آج پھر ڈرون حملہ ہوگا، آج پھر فائرنگ ہوگی اور ہم پھر لاشیں دیکھیں گے، ان کے ذہن میں صرف یہی خوف بیٹھا ہوا ہے، باقی جو زندگی کے دوسرے معاملات ہیں، جیسا کہ خوشیاں اور کھیل کود، ان کے بارے میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے، ان کے ذہنوں میں صرف خوف ہی خوف ہے۔‘‘

ARCHIVBILD Pakistan Protest gegen die USA
دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو امریکا کا اہم اتحادی خیال کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جانس خان نے مزید کہنا تھا کہ ان کے بچوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے ان کا اپنا چھ سالہ بیٹا اکثر نیند میں ڈر جا تا ہے اور دھماکے یا دوسرے نا خوشگوار واقعات کے بعد ان کو بھی گھر سے باہر نکلنے سے روکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امن ومان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بعض کم سن بچے شدت پسند گروہوں میں بھی شمولیت اختیار کر رہے ہیں جو کہ ایک تشویش کی بات ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سعدیہ شفیق کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بچوں کے ناپختہ ذہن ہوتے ہیں اور وہ اس قسم کے واقعات سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ان بچوں کے بچپن ہی میں سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہوکر نفسیاتی مریض بن جانے کے خدشات ہیں۔ ڈاکٹر صادیہ کا مزید کہنا ہے ''ہم ذیادہ تر دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات سے بچوں کو گھبراہٹ ہوتی ہے، وہ سکول جانے سے انکاری ہو جاتے ہیں، بے وجہ روتے ہیں، باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں اور اپنے والدین کو بھی باہر جانے سے روکتے ہیں، اور اس کے علاوہ ان کی نیند کی بہت متاثر ہوتی ہے۔‘‘

دانش بابر، پشاور

ادارت: عابد حسین