1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہبازشریف کا دورہ سعودی عرب، سوشل میڈیا پر طوفان

عبدالستار، اسلام آباد
26 اپریل 2022

نومنتخب پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اپنے دورے پر سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اس دورے پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ASfM
Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کل پہلے بیرونی دورے پر سعودی عرب جارہے ہیں لیکن ان کے دورے سے پہلے ایک طرف سوشل میڈیا پر دورے پر جانے والوں کی تعداد کے حوالے سے طوفان کھڑا ہو گیا ہے تو دوسری طرف خارجہ امور کے ماہرین اس بات پر سوچ رہے ہیں کہ پاکستان اس دورے سے کیا حاصل کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم بننے کے بعد یہ کسی ملک کا پہلا دورہ کر رہے ہیں، جس میں ان کے خاندان کے افراد بھی ان کے ساتھ جائیں گے۔ وزیر اعظم اور ان کے ہمراہ جانے والوں میں کئی افراد عمرہ بھی ادا کریں گے۔

پاکستان آئی ایم ایف امدادی پروگرم کے حجم میں وسعت کا متمنی

پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں: نئی پاکستانی حکومت کا سبسڈی کے خاتمے پر غور

سوشل میڈیا پر طوفان، پی ٹی آئی کی تنقید

اس دورے پر جانے والے افراد کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ ان افراد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس دورے کے لیے پی آئی اے کا ایک جہاز بُک کیا گیا ہے، تاہم یہ خبر بعد میں غلط ثابت ہوئی اور حکومت نے اس کی پر زور تردید کی۔ حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ شریف فیملی کے افراد اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے۔ جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ شریف فیملی نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد ہی قومی خزانے کو لوٹنا شروع کر دیا  ہے اور ’’پورے کے پورے ٹبر‘‘کو سعودی عرب لے جایا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس دورے میں نہ صرف شریف فیملی کے افراد جا رہے ہیں بلکہ حکومت کے اتحادیوں میں سے بھی کئی لوگ جا رہے ہیں اس کا مقصد صرف اور صرف سرکاری پیسے کا ضیاع ہے۔

پاک سعودی تعلقات

اس تنقیدی طوفان سے خارجہ امور کے ماہرین اس بات پر غور و فکر رہے ہیں کہ آخر اس دورے سے پاکستان کو کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں ریاض اور اسلام آباد کے تعلقات بہت زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ عمران خان کے ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کرانے کے حوالے سے بیانات اور بعد میں ملائشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر اسلامی بلاک بنانے کی مبینہ کوشش نے سعودی حکمرانوں کو سخت ناراض کر دیا تھا۔ بعد میں ان تعلقات میں کچھ بہتری آئی اور سعودی عرب نے تین بلین ڈالر پاکستانی اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی دیے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تین بلین ڈالر بہت سخت شرائط پر دیے گئے اور سعودی عرب نے ان کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

شریف فیملی اور سعودی عرب

ناقدین کا دعویٰ ہے کہ شریف فیملی اور سعودی عرب کے شاہی حکمرانوں کے درمیان تعلقات بہت خوشگوار ہیں اور یہ تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں شریف خاندان کو پناہ وہاں ملی اور2013 میں جب نواز شریف کی حکومت آئی تو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کی طرف رواں دواں ہوئے۔ گو کہ اس دوران خارجہ امور کے حوالے سے کچھ مسائل پہ اختلافات بھی تھے لیکن تعلقات اتنے سرد مہری کا شکار نہیں تھے جتنے کہ وہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں رہے۔

معیشت کی بہتری

کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے مالی مدد کی ہے اور اب بھی اسی طرح کی توقع کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب مختلف شعبوں میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سعودی عرب کے شریف فیملی سے اچھے تعلقات ہیں اور جنرل مشرف کے دور میں بھی جب اس فیملی پر برا وقت آیا تھا تو وہ سعودی عرب ہی گئی تھی اور وہاں جاکر اس نے کاروبار بھی کیا۔ اب شہباز شریف جا رہے ہیں اور میرے خیال میں اس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ موجودہ حکومت ممکنہ طور پر ادھار تیل، مین پاور سپلائی اور پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کرنے کی کوشش کرے گی اور سعودی عرب سے معاشی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘

مدرسہ اصلاحات اور سعودی عرب

نور فاطمہ کا خیال رہے کہ سعودی عرب میں حالیہ برسوں میں بہت ساری تبدیلیاں ہوئی ہیں اور وہاں اصلاحات کا نفاذ کیا جارہا ہے معاشرہ لبرل ازم کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ یہ لبرلزم معیشت میں بھی نظر آرہا ہے۔ ''یہ دورہ صرف اچھے تعلقات کے لیے ہے اور جو سرد مہری تھی اس کو ختم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ پاکستان کو کسی مرحلے پر سعودی عرب سے یہ درخواست ضرور کرنی چاہیے کہ وہ پاکستانی مدارس کو جدید بنانے میں اسلام آباد کی مدد کرے کیونکہ یہ مدارس ماضی میں ریاض کی ہی فنڈنگ سے کھلولے گئے تھے۔ اب سعودی عرب میں جدت پسندی کے لیے کام ہو رہا ہے تو ریاض کو یہاں بھی جدت پسندی کی حوالے سے پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘

 شہباز شریف پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے

تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خارجہ امور پر اب کسی بھی حکومت کے لیے کوئی فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اور اس کو تمام عوامل پیش نظر رکھنے پڑیں گے۔ ان امورکے حوالے سے عمران خان نے پہلے ہی ایک سیاسی طوفان کھڑا کیا ہوا ہے جس کو شہباز شریف سعودی عرب سے بات چیت کرتے ہوئے پیش نظر رکھیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خارجہ امور کے حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے شہباز شریف کو ممکنہ طور پر عمران خان کا ردعمل ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ یہ حکومت صرف شہباز شریف کی نہیں بلکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی ہے جس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ اگر سعودی عرب نے کوئی ایسا مطالبہ کیا جو پیپلزپارٹی کو قابل قبول نہیں ہوا تو پیپلز پارٹی اسے نہیں مانے گی۔ لہذا شہباز شریف کو بہت محتاط رہنے پڑے گا اور میرا خیال ہے کہ وہ بڑے محتاط انداز میں سعودی عرب سے تعلقات کو استوار کریں گے۔‘‘

پاکستان: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کا جشن