1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واٹرشیڈپروجیکٹ : بھارت جرمن تعاون کا ٹریڈ مارک

11 نومبر 2009

جنوبی ایشیا میں پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسی لئے جرمن ٹیکنکل کارپوریشن نامی ادارہ اس اور اس سے متعلقہ کئی دیگر مسائل کے حل کے لئے بھارت میں سرگرم عمل ہے۔

https://p.dw.com/p/KU6o
تصویر: AP

پانی کی قلت کو دور کرنے، اس کا مناسب استعمال کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے جرمنی کے ادارے GTZ یعنی جرمن ٹیکنیکل کوآپریشن اور بھارت کے واٹرشیڈ آرگنائزیشن ٹرسٹ یعنی WOTR نے پچھلے دو دہائیوں کے درمیان کئی کامیاب تجربے کئے ہیں۔

GTZ اور WOTR نے اپنے مشترکہ پروجیکٹ کا آغاز 1989ء میں مہاراشٹر کے خشک سالی سے متاثرہ احمد نگر ضلع کے ایک قصبہ گنجل واڑی سے کیا تھا۔ گزشتہ 20 برسوں کے دوران پانی کو بچانے اور اس کے صحیح استعمال کرنے یعنی واٹرشیڈ کا یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ اب اس پر ملک کی 18ریاستوں میں عمل ہورہا ہے۔ جرمنی اور بھارت کے ماحولیات، آبی وسائل اور قدرتی وسائل کے ماہرین نے یہاں ان تجربات کے مختلف پہلووں پر غور کیا اور انہیں جنوبی ایشیا کے دیگرملکوں میں نافذ کرنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔

Weltwassertag
گزشتہ بیس برسوں کے دوران واٹر شیڈ کے تجربات کافی کامیاب رہے ہیںتصویر: AP

اس موقع پربھارت میں GTZ کے قدرتی وسائل شعبہ کے سربراہ رویندر کمار نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مزید خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ انہوںنے کہا: ’’ پانی یقینی طور پچھلے کچھ عرصے سے ایک بڑا مسئلہ ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کو وجہ سے مستقبل میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہوسکتا ہے کیوں کہ پانی کی قلت دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ پانی کے لئے جھگڑے بھی بڑھ رہے ہیں“۔

رویندر کمار نے کہا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران واٹر شیڈ کے تجربات کافی کامیاب رہے اور مستقبل میں انہیں مزید موثر بنانے کے طریقہ کارتیارکئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں واٹرشیڈ کے تجربات کئے جارہے ہیں وہاں پانی کی قلت دور ہورہی ہے۔ پینے کا پانی سالوں بھر ملنے لگا ہے، آبپاشی کا پانی مل رہا ہے اور لوگ ایک فصل سے دو فصلیں اگارہے ہیں۔

خیال رہے کہ انڈو۔ جرمن واٹر شیڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کا خواب تقریبا چالیس سال قبل ایک نوجوان سوئس راہب فادر ہرمن باخر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے خشک سالی سے پریشان حال کسانوں میں خوداعتمادی اور خودانحصاری پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی، کسانوں کو منظم کیا، انہیں مالیاتی اداروں سے جوڑا اور زرعی یونیورسٹیوں اور سرکاری محکموں کے توسط سے انہیں تکنیکی امداد فراہم کرائی ۔اسی لئے انہیں بھارت میں واٹر شیڈ پروگراموں کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ان کے کارناموں کے لئے جرمنی نے انہیں اپنے اعلی ترین شہری ایوارڈ ’فیڈرل کراس آف دی آرڈر آف میرٹ ‘ سے نوازا۔ جبکہ بھارت میں انہیں ’کرشی بھوشن‘ اور ’ون شری‘ جیسے ماحولیات کے اہم ایوارڈ دئے گئے۔

رویندر کمار نے کہا کہ واٹرشیڈ منیجمنٹ آج انڈوجرمن پارٹنرشپ کا ایک ٹریڈ مارک بن گیا۔ جب ڈوئچے ویلے نے رویندر کمار سے پوچھا کہ کیا وہ کسی ایسے کامیاب تجربے کے بارے میں بتا سکتے ہیں ، جو جنوبی ایشیا کے دیگرعلاقوں کے لئے بھی مثال بن سکے۔ تو انہوں نے گنجل واڑی کا ذکر کرتے ہوئے کہا : ”یہ بھارت میں ایک ماڈل بن کر ابھرا ہے اور حکومت نے بھی اپنی پالیسیوں اور پروگراموں میں اس کو شامل کیا ہے۔

BdT Indischer Farmer am Welt Wasser Tag
بھارت میں پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہےتصویر: AP

خیال رہے کہ واٹر شیڈ ڈیولپمنٹ کے اس پروجیکٹ سے صرف مہاراشٹر میں ہی دو لاکھ 21ہزار ہیکٹیر زمین کی آبپاشی ممکن ہوسکی اور اس سے تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ GTZ کے قدرتی وسائل کے بھارت میں سربراہ رویندر کمارنے مستقبل کے پروگرام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ”ہمارے سامنے اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو جو مسائل پیش آنے والے انہیں کیسے حل کیا جائے۔“

افتخار گیلانی‘ نئی دہلی

ادارت: عاطف بلوچ