1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وانا کا دھرنا: مرکز اور صوبائی حکومت الزام تراشیوں میں مصروف

11 جنوری 2023

جنوبی وزیرستان کے شہر وانا میں امن کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف چھٹے روز بھی دھرنا جاری رہا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ دنوں کے دوران دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/4M1Pg
تصویر: Adnan Baitani

وانا میں  اس دھرنے نے جہاں لوگوں کی توجہ دہشت گردی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی جانب مبذول کرائی، وہیں اس مظاہرے کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ پختون قوم پرست بھی پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے مقامی حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مظاہرہ بدھ کو بھی جاری رہا۔ حکام کے مطابق مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ علاقے میں امن قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ ایک تاجر جمشید وزیر کو بازیاب کرانے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، جسے ایک ماہ پہلے اغوا کیا گیا تھا۔

دھرنے کے مقاصد

سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں یہ مظاہرے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور طالبان دہشت گردوں کی ری گروپنگ کے خلاف ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان مظاہروں کے کئی مقاصد ہیں، اور ان میں سے ایک خیبر پختونخواحکومت کی دہشت گرد نواز پالیسی کے خلاف احتجاج ہے۔ مظاہرین یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی جنگ کا حصہ بننے نہیں دیں گے کیونکہ حکومت کی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی پالیسی نے خیبرپختونخوا کو خاک و خون میں نہلایا اور وہاں پر تباہی مچائی۔‘‘

Karte Pakistan mit Waziristan
دہشت گرد سرحد پار کر کے آ رہے ہیں، کے پی حکومت

’کے پی کے‘ کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

 بشری گوہر نے سابق وزیراعظم عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی فتح پر خوش تھے اور انہوں نے اعتراف کیا  کہ وہ پاکستانی طالبان کو بھی بحال کرنا چاہتے تھے، ''عمران خان، ان کے سلیکٹرز اور بقیہ سارے لوگ جو دہشت  گردوں کو واپس لے کر آئے ہیں، ان کے خلاف کریمنل کیسز درج ہونے چاہیں جبکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو فوری طور پر استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ وہ عوام کو امن اور سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔‘‘

بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ ان دہشت گردوں کی آمد کے خلاف پورے خیبر پختونخواہ میں غم و غصہ ہے اور تقریبا صوبے کے ہر ضلع میں ان کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، ''اور یہ مظاہرے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ریاست اچھے اور برے طالبان کی پالیسی ترک نہیں کرے گی۔‘‘

 

عوام کے خدشات

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خدشات ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں حالات دوبارہ ماضی کی طرح خراب ہونے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پورے خیبر پختونخواہ کے طول و عرض میں عوام مظاہرے کر رہے ہیں کیونکہ طالبان دہشت گرد ایک بار پھر علاقوں میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ عمران خان کے دور میں افغانستان کی جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو رہائی دی گئی۔ اب وہ یہاں پر آ کر دہشت گردی کر رہے ہیں۔ پشاور سے بہت سارے لوگ ہجرت کر کے پنجاب جا رہے ہیں جبکہ خیبرپختونخواہ کے کئی علاقوں میں خوف کی فضا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ حکومت کی دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘‘

Pakistan Mitglied Nationalversammlung Bushra Gohar
حکومت کی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی پالیسی نے خیبرپختونخوا کو خاک و خون میں نہلایا, بشری گوہرتصویر: privat

وفاق کی ذمہ داری

واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے صوبے کی صورت کی ذمہ داری کے پی حکومت پر ڈالی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف پختون قوم پرستوں اور وفاقی وزیر کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دہشت گرد سرحد پار کر کے آ رہے ہیں اور سرحدوں کی نگرانی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے، صوبائی حکومت کی نہیں۔ صوبائی حکومت پولیس کو اس وقت تک استعمال کر سکتی ہے جب صوبے میں چوری یا ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہوں۔ اگر صوبے کے کسی اور علاقے میں کوئی دہشت گرد دہشت گردی کر رہا ہے تو پولیس اس کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن اگر دہشت گرد بارڈر کراس کرکے آرہے ہیں، تو پھر یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو پکڑے۔‘‘

 

دہشت گردانہ حملے

واضح رہے کہ صوبہ پختونخواہ میں حالیہ ہفتوں میں لکی مروت اور دوسرے علاقوں میں پولیس پر دہشت گردانہ حملے ہوئے جب کہ ایسے حملے سابق قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج پر بھی ہوئے۔ پاک انسٹیٹوٹ فار پیس کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں مجموعی طور پر دو سو باسٹھ دہشت گردانہ حملے ہوئے، جس میں چار سو انیس افراد ہلاک اور سات سو چونتیس زخمی ہوئے۔ ان میں سے اناسی حملے کالعدم ٹی ٹی پی نے کیے۔ مجموعی طور پر دہشت گردانہ حملوں میں ستائیس فیصد اضافہ ہوا۔

دہشت گردی ختم، اب کہانی کچھ اور ہے