1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’والد زندہ ہیں یا مردہ کچھ پتہ نہیں‘ ایغور کارکن کی بیٹی

19 دسمبر 2019

چین میں قید معروف ایغور اسکالر اور سماجی کارکن الہام توختی کی بیٹی نے اپنے والد کی طرف سے یورپی یونین کا انسانی حقوق کا اعلیٰ ترین سخاروف ایوارڈ حاصل کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3V4Ix
Sacharow-Preis für geistige Freiheit 2019 Ilham Tohti
تصویر: Reuters/V. Kessler

اسٹراسبرگ میں ہونے والی انعامی تقریب میں اپنے والد کے لیے ’سخاروف ایوارڈ 2019ء‘ حاصل کرتے ہوئے جوہر الہام نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ان کے والد زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ توختی الہام کو سن دو ہزار چودہ میں چین میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ تب سے جیل میں ہیں۔ جوہر الہام نے انعام حاصل کرنے کے بعد کہا، ''یہ چین سے لڑنے کی بات نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی بات ہے۔‘‘

انہوں نے یورپی یونین کی پارلیمان کے ارکان سے کہا کہ وہ چینی حکام کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے اپنے قانون کا استعمال کریں۔ الہام توختی ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی امور کے ایک اچھے اسکالر ہیں۔ وہ ایغوروں اور مقامی ہان لوگوں کے درمیان تعلقات پر اپنی ریسرچ کے لیے بھی معروف ہیں۔ لیکن سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیتوں کے تعلق سے وہ اکثر حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے تھے۔ ان پر چین نے علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا، جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔

Sacharow-Preis für geistige Freiheit 2019 Ilham Tohti
تصویر: Reuters/V. Kessler

دو ہزار چودہ میں انہیں اسی کے لیے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور جیل بھیج دیا گیا تھا۔ عالمی سطح پر چین کے ان اقدامات کی مذمت کی گئی تھی۔ امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ان کی رہائی کی اپیل کی تھی۔

جوہر الہام نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکا میں گزارا اور واشنگٹن میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں، جو ایغوروں کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں بھی کئی بار ان کے گھر میں ان کے فون اور کمپیوٹر کو ہیک کر لیا جاتا ہے۔

یورپی ارکان پارلیمان کو انہوں نے بتایا کہ سن دو ہزار تیرہ میں ان کے والد توختی الہام ان کے ساتھ چین سے امریکا میں ایک ٹیچنگ پوسٹ کے لیے نکل رہے تھے، تبھی چینی حکام کو پتہ لگا اور انہیں ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''سچ بات کہوں تو مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے والد کہاں ہیں۔ میرے اہل خانہ نے دو ہزار سترہ میں آخری بار ان کے الفاظ سنے تھے۔‘‘

 ان کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ چین کی پالیسیوں کے خلاف کچھ بھی کہیں گی تو ان کے اہل خانہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ الہام نے کہا، ''میں شکر گزار ہوں کہ ان کی کہانیاں کہنے کا مجھے موقع ملا، کیونکہ وہ خود تو بتا نہیں سکتے ہیں۔‘‘

جوہر الہام کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ برس یہی انعام جیتنے والے یوکرائن کے فلمساز اولیگ سینتو کے واقعے سے تحریک مل رہی ہے اور امیدیں بھی وابستہ ہیں۔ یوکرائن کے فلم ہدایت کار بھی قید میں تھے اور اس انعام کے ملنے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔