1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واشنگٹن حکومت کے افغان جنگجوؤں سے مذاکرات

23 جنوری 2012

افغانستان میں قیام امن کے لیے اعلیٰ امریکی حکام نے سابق افغان وزیراعظم گلبدین حکمت یار کے داماد ڈاکٹر غیرت بہیر سے ملاقاتیں کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/13oI8
تصویر: AP

واشنگٹن حکومت نے سن 2003 ء میں حزب اسلامی کے سرکردہ رہنما گلبدین حکمت یار کو القاعدہ کےساتھ مبینہ روابط پر ایک ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔گلبدین حکمت یار کے قریبی ساتھی ڈاکٹر غیرت بہیر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے رواں ماہ کے دوران افغانستان متعین نیٹو فورسز کے سابق کمانڈر اور امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس ، کابل میں تعینات امریکی سفیر ریان کروکر اور اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ہیں۔

افغانستان کی بگرام ایئر فیلڈ میں چھ برس تک قید میں رہنے کے بعد سن 2008ء میں رہائی پانے والے ڈاکٹر بہیر نے اعلیٰ امریکی اہلکاروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے یہ عمل حال ہی میں شروع ہوا ہے۔

David Petraeus / USA / Afghanistan / NO-FLASH
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاستصویر: AP

سال دو ہزار دس میں اس اسلامی پارٹی نےکابل حکومت کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات کے دوران پندرہ نکاتی امن معاہدہ پیش کیا۔ اس معاہدے کا اہم نکتہ افغاستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاءکا مطالبہ تھا۔ اس وقت امریکی حکومت نے ان مذاکرات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر بہیر نے کہا، ’حزب اسلامی ایک حقیقت ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں ایک مہنگے علاقے میں واقع اپنےکشادہ گھر میں انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر بہیر نے کہا کہ ماضی میں واشنگٹن اور کابل نے حزب اسلامی کو وقعت نہیں دی تاہم اب انہیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ حزب اسلامی کے بغیر وہ افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔

واشنگٹن میں قومی سلامتی کونسل کی خاتون ترجمان کیلیٹن ہیڈن نے امریکی حکام اور ڈاکٹر بہیر کے مابین ہونے والی مبینہ ملاقاتوں کی تصدیق نہیں کی تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ افغانستان میں مصالحتی عمل کے لیے رابطے بڑھائے جا رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہےکہ ڈاکٹر بہیر اور ڈیوڈ پیٹریاس کے مابین جولائی سن دو ہزار گیارہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ گزشتہ برس ستمبر میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ڈیوڈ پیٹریاس اس وقت افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔

John Allen NO FLASH
اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل جان ایلنتصویر: AP

ڈاکٹر غیرت بہیر نے ڈیوڈ پیڑیاس کو ایک ’نفیس اور عاجز‘ شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی ملاقاتوں میں ’ایک نفسیاتی جنگ‘ جاری رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریان سی کروکر اور جنرل جان ایلن نے ان پر زور دیا کہ حزب اسلامی افغانستان میں سیاسی دھارے کا حصہ بنتے ہوئے افغان آئین اور افغان سکیورٹی فورسزکو تسلیم کر لے۔ ڈاکٹر بہیر کے بقول انہوں نے اعلیٰ امریکی اہلکاروں کے ان مطالبات کو مشروط طور پر قبول کرنے کی حامی بھری ہے تاہم اس کے لیے پہلی شرط یہ ہےکہ افغانستان میں موجود تمام غیر ملکی سپاہی واپس چلے جائیں۔

ڈاکٹر غیرت بہیر نے مزید کہا، ’ افغانستان میں غیر ملکی سپاہیوں کی موجودگی کسی صورت میں بھی قبول نہیں کی جائے گی‘۔ ڈاکٹر بہیر کے بقول افغانستان میں غیر ملکی فوجی شہری ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں اور جتنی دیر یہ فوجی افغانستان میں قیام کریں گے ، افغان عوام میں ان کے خلاف نفرت میں اتنا ہی اضافہ ہی ہو گا۔

ہفتے کے دن افغان صدر حامد کرزئی نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے حزب اسلامی کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ ڈاکٹر بہیر نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اسلامی افغان حکومت نہ صرف بدعنوان بلکہ ناجائز سمجھتی ہے۔

NO FLASH Ryan Crocker
کابل میں تعینات امریکی سفیر ریان کروکرتصویر: dapd

حکمت یار ، جن کی عمر ساٹھ برس سے زائد بتائی جاتی ہے، اُن افغان رہنماؤں میں شامل تھے، جنہوں نے 80 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران سوویت افواج کے مقابلے کے لیے امریکی مدد حاصل کی تھی۔ ملا عمر کے سخت مخالف حکمت یار سال دو ہزار ایک میں ایران فرار ہو گئے تھے۔ انہوں نے افغانستان میں غیر ملکی افواج کے خلاف ’جہاد‘ کا اعلان کرتے ہوئے طاقت جمع کرنا شروع کی اور سال دو ہزار آٹھ میں وہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کے لیے ایک ’حقیقی خطرہ‘ بن گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان کے بالخصوص شمالی اور مشرقی علاقوں میں ان کے ہزاروں جنگجو اور حامی حزب اسلامی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں