واشنگٹن انتظامیہ اور سیلیکون ویلی کے مابین عدم اعتماد
14 فروری 2015امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ ہیکرز کے حملوں سے بچاؤ کے لیے قریبی تعاون کے ساتھ ممکنہ اقدامات کرے۔ حال ہی میں امریکی سائبر ڈیفنس نظام میں پائے جانے والے نقائص اس وقت افشا ہوئے تھے، جب سونی جیسی بڑی کمپنی کو سائبر حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس تناظر میں امریکی صدر کی ایما پر جمعے کے روز اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں ایک سائبر کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
اس موقع پر اوباما نے سیلیکون ویلی کے ماہرین پر زور دیا کہ وہ حکومت پر بے اعتمادی کو ایک طرف رکھتے ہوئے انتظامیہ کے ساتھ مل کر امریکی سائبر اسپیس کو دہشت گردوں اور ہیکرز سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک اتحاد قائم کر لیں۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں اوباما نے پرائیوٹ سیکٹر اور حکومت کے مابین سائبر حملوں کے خطرات کے بارے میں معلومات کے بہتر اور تیزتر تبادلے سے متعلق انتظامی احکامات پر دستخط کیے۔ اوباما کا کہنا تھا، ’’ یہ ایک مشترکہ مشن ہونا چاہیے۔‘‘
سائبر سمٹ اسٹینفرڈ میں کیوں؟
سائبر سکیورٹی کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایماء پر سمٹ کا انعقاد ریاست کیلیفورنیا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں اس لیے ہوا کہ اسے گوگل، یاہو اور دیگر ٹیکنالوجی کے عظیم الجثہ موجدوں کا جائے پیدائش مانا جاتا ہے۔ اس بارے میں ایک سائبر ایکسپرٹ Herb Lin نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا،’’ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے بعد سے سیلیکون ویلی میں اہم ترین کردار ادا کرنے والی چند کمپنیوں کے مالکوں کا واشنگٹن حکومت پر سے اعتماد بالکل اُٹھ چُکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اوباما کی سائبر سکیورٹی کانفرنس میں گوگل، یاہو، مائیکرو سافٹ اور فیس بُک جیسی اہم کمپنیوں کے سربراہان شریک نہیں ہوئے۔ محض ایپل کے چیف ’ ٹم کاک‘ نے اس میں شرکت کی۔ یہ ایک خفت آمیز ناکامی ہے اور امریکی حکومت اور ان بڑی کمپنیوں کے مابین اعتماد سازی بحال کرنا ایک بڑا مسئلہ نظر آ رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ہربرٹ لِن نیشنل اکیڈمیز کی نیشنل ریسرچ کونسل کے کمپیوٹر سائنس اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن بورڈ کے ایک سربراہ سائنسدان ہیں۔
متعدد ٹیکنیکل فرموں اور شہری آزادی کے لیے سرگرم عناصر نے کہا ہے کہ وہ اوباما کے سائبر سکیورٹی کے منصوبے کا ساتھ اس شرط پر دیں گے کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی این ایس اے نگرانی میں بھی اصلاحات کو یقینی بنایا جائے۔
اوباما کی پریشانی
امریکی صدر باراک اوباما نے ایک ٹیکنیکل نیوز ویب سائٹ Re/code کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے، ’’ سونی پر سائبر حملہ اس لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ معاملہ صرف یہ نہیں کہ شمالی کوریا محض سائبر حملوں میں مہارت رکھتا ہے بلکہ چین اور روس بھی ان سرگرمیوں میں بہت آگے ہیں اور ایران کے سائبر حملوں کے خطرات بھی موجود ہیں۔‘‘
اوباما نے اس امر کا اقرار کیا کہ این ایس اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے حکومت اور تکنیکی کمپنیوں کے مابین بد اعتمادی کی خلیج پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدر نے تاہم اس بارے میں یورپ کے رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’یورپ فیس بُک اور گوگل استعمال کرنے والوں کی پرائیویسی کے بارے میں جس تشویش کا اظہار کر رہا ہے اُس کے پیچھے محض تجارتی عوامل کارفرما ہیں‘‘۔
اوباما نے کہا ہے کہ یورپی کمپنیاں امریکی کمپنیوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتیں اس لیے وہ سائبر سکیورٹی کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہوئے امریکی ٹکنیکل کمپنیوں کا راستہ بلاک کرنا چاہتی ہیں۔