وارسا میں یہودی بستی کی نازی جرمنی کے خلاف بغاوت
سات عشرے قبل یعنی اپریل 1943ء میں وارسا کے یہودیوں نے نازی فوج کا چار ہفتے تک ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا
مقبوضہ آبادی کی تلاشی
وارسا پر قابض سابق نازی جرمن فوج کی خفیہ سروس کے مسلح عہدیدار مقامی آبادی کی تلاشی لیتے ہوئے، 19 اپریل کو یہاں کے یہودیوں نے بغاوت کا آغاز کر دیا تھا
یہودی بستی پر قبضہ
نازی جرمنی نے 1939ء کے وسط میں پولینڈ پر قبضہ کیا تھا، پولینڈ کے دارالحکومت میں اس وقت قریب ساڑھے تین لاکھ یہودی بستے تھے، جو کسی بھی یورپی شہر میں یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی
معمولات زندگی میں یکسر تبدیلی
یہ سڑک دکھاتی ہے کہ مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ میں معمولات زندگی کس قدر پرسکون تھے، اکتوبر 1940ء میں شہر کی یہودی آبادی کو ہر جگہ سے بے دخل کرکے ایک علاقے میں مقید کر دیا گیا تھا اور ان کے اردگرد تین میٹر اونچی دیوار تعمیر کر دی گئی تھی
مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل
اس تصویر میں مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل دیکھا جاسکتا ہے جس کے ذریعے دیگر علاقوں تک رسائی ناممکن تھی، یہاں کے لوگوں سے کھیتوں،کارخانوں یا فوج میں جبری محنت کروائی جاتی تھی
جرمن قوانین کا نفاذ
مقبوضہ یہودی بستی کے اندر جرمن انتظامی فورس Ordnungsdienst کے عہدیدار انتظامی امور چلاتے تھے۔ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے یہاں کے یہودیوں کو Judenrat سے رابطہ کرنا پڑتا تھا جو جرمن قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتے تھے
ناگفتہ حالات زندگی
وارسا کے مقبوضہ یہودی علاقے میں حالات زندگی ویسے ہی ناگفتہ تھے۔ ایسے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابق نازی فوج نے دیگر مقبوضہ علاقوں سے بھی یہودیوں کو یہاں لانا شروع کر دیا اور یہاں کی آبادی ایک وقت میں چار لاکھ تک پہنچ گئی تھی
سخت حالات میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل
مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ کے اندر بچوں، خواتین اور بیمار افراد کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی رہی، اگرچہ یہاں کھانے پینے اور ادویات کی شدید قلت تھی تاہم پھر بھی یہودی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے
گیٹو سے قتل گاہوں میں منتقلی
وارسا کے ’گیٹو‘ سے یہودیوں کی ’extermination camps‘ یعنی قتل گاہوں کو منتقلی شروع ہوئی، زیادہ تر لوگوں کو ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم Treblinka کیمپ منتقل کیا گیا، نازی فوج کے انتظامی افسر اور Judenrat کے سربراہ ,Adam Czerniakow نے اس عمل کے دوران بطور احتجاج خودکشی کرلی تھی
جرمن فوج پر فائرنگ
اپریل 1942 میں وارسا گیٹو کو بڑی حد تک خالی کر دیا گیا تھا اور بچ جانے والے یہودی رہائشیوں کو اذیتی مراکز میں منتقل کر دیا گیا تھا جس کے معنی موت کے تھے۔ جب خفیہ فوج SS کے عہدیدار 19 اپریل کو کیمپ میں داخل ہوئی تو یہودی مزاحمت کاروں نے ان پر فائرنگ کی
بستی کے گھر نذر آتش
جنرل یورگن سٹروپ (بائیں جانب سے تیسرے) کی قیادت میں نازی جرمن فوج SS کو چار ہفتے تک یہودی مزاحمت کاروں کے حملوں کا سامنا رہا، سابقہ نازی فوج نے اپنا کنٹرول یقینی بنانے کے لیے ’گیٹو‘ کے اندر ایک ایک کرکے تمام عمارتوں کو نذر آتش کر دیا
مزاحمت دم توڑ گئی
مئی کی 16 تاریخ کو مزاحمت دم توڑ گئی، وارسا کے ’گیٹو‘ میں قریب دس لاکھ لوگوں کو قابض رکھا گیا تھا اور رپورٹوں کے مطابق ان میں سے کچھ ہزار ہی زندہ بچے
یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی کوشش
وارسا میں یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی غرض سے سابق نازی فوج نے یہاں یہودیوں کی عبادت گاہ کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔ نازی فوج SS کی رپورٹ کے مطابق وارسا میں یہودیوں کی تعداد 56065 تھی۔
کچھ ہی لوگ بچ سکے
مزاحمت کو پسپا کر دیا گیا اور ’گیٹو‘ سے لگ بھگ 56 ہزار لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا، ان بچ جانے والے افراد کو جبری مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا اور محض کچھ ہی کو بعد میں بچایا گیا
مظالم کی معافی مانگ لی گئی
سابق جرمن چانسلر ولی برانڈ کی یہ تصویر 1970ء میں دنیا بھر نے دیکھی جب انہوں نے وارسا کے دورے کے وقت ’گیٹو کے ہیروز کی یادگار‘ پر بطور احترام و عقیدت گھٹنے ٹیکے۔، دنیا نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج کی جانب سے کیے گئے مظالم کی معافی سے تعبیر کیا