1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وادی نيلم ميں موسم گرما کی آمد، فکر اور پريشانی کا سبب کيوں؟

7 جولائی 2018

پاکستانی زير انتظام کشمير ميں موسم گرما اپنے عروج پر ہے اور پہاڑوں کی چوٹيوں سے برف اور گليشيئرز پگھلنا شروع ہو گئے ہيں۔ ايسے ميں پانی کے بہاؤ کے ساتھ وہاں دبی بارودی سرنگيں بھی واديوں کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی ہيں۔

https://p.dw.com/p/30zKM
Neelum-Jhelum Wasserkraftwerk
تصویر: picture-alliance/dpa/Mughal

وادی نيلم کے بنگا نامی گاؤں کا رہائشی محمد سليمان بتاتا ہے کہ اس کا گاؤں ايک پہاڑ کی آغوش ميں واقع ہے اور اوپر پہاڑوں پر دشمن افواج کی چوکياں ہيں۔ اس نے بتايا، ’’جب برف پگھلتی ہے تو پانی کے بہاؤ کے ساتھ بارودی سرنگيں بھی ہمارے گاؤں کی طرف بڑھتی ہيں۔‘‘ مقامی افراد اپنی روز مرہ کی زندگی ميں وہاں بہنے والی نہروں کے مقابلتاً کم گہرے حصوں سے اکثر پيدل چل کر گزرا کرتے ہيں اور کئی بارودی سرنگوں کے سبب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھتے ہيں۔

اس بارے ميں حتمی اعداد و شمار دستياب نہيں کہ ہر سال کتنی ايسی بارودی سرنگيں آبادیوں تک پہنچ جاتی ہيں اور ان کے سبب کتنے حادثات رونما ہوتے ہيں۔ يہ علاقہ کافی وسيع ہے اور گاؤں کے لوگ اکثر حادثات کی اطلاع بھی نہيں ديتے۔ ’پاکستان ريڈ کريسنٹ سوسائٹی‘ کو لائن آف کنٹرول تک رسائی حاصل نہيں اور اس کے پاس بھی اس حوالے سے زيادہ معلومات نہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ يہ مسئلہ ہر سال موسم گرما ميں ہی صرف اس وقت ابھرتا ہے جب درجہ حرارت ميں اضافے کی وجہ سے برف پگھلنا شروع ہوتی ہے۔

اس گاؤں ميں بجلی تو دستياب ہے ليکن بس اتنی کہ اس سے بلب وغيرہ جل سکيں۔ بُنگا پاکستان اور بھارت کے درميان لائن آف کنٹرول سے چند سو ميٹر کے فاصلے پر ہے اور اوپر پہاڑوں پر دونوں اطراف، پاکستان و بھارت کی مسلح افواج تعينات ہيں۔ بہتر سالہ سليمان کی طرح سليمہ بی بی بھی پندرہ سو افراد کی آبادی والے بُنگا کی رہائشی ہيں۔ پچھلے سال ستمبر ميں وہ دريا کے پاس ايک مقام پر گھاس کاٹ رہی تھيں کہ قريب ہی ايک دھماکا ہوا اور گر پڑيں۔ سليمہ بی بی زخمی ہوئيں اور انہيں مظفرآباد کے ہسپتال لے جايا گيا۔ ڈاکٹروں نے دو ماہ تک ان کی زخمی ٹانگ کو بچانے کی کوشش کی تاہم بالآخر اسے کاٹنا پڑ گيا۔

تين بچوں کی والدہ سليمہ بی بی نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو بتايا کہ ان کے ليے بچوں کی ديکھ بھال اور روز مرہ کی زندگی اب کافی مشکل ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہيں، ’’ميں نہيں چاہتی کہ جو کچھ بھی ميرے ساتھ ہوا، وہ ديگر افراد کے ساتھ بھی ہو۔‘‘ اسی مقصد سے اب وہ مقامی حلال احمر کے ساتھ تعاون کر رہی ہيں تاکہ لوگوں کو اس خطرے سے آگاہ کيا جا سکے۔ ريڈ کريسنٹ نے اس سسلے ميں آگہی پھيلانے کے ليے وادی نيلم ميں سن 2011 سے مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس سلسلے ميں اس ادارے کے ليے کام کرنے والے گھروں ميں جا کر لوگوں کو خطرات اور احتياطی تدابير سے آگاہ کر رہے ہيں۔

پاکستان کو سياحت کے ليے بہترين ملک کے طور پر منوانے کے ليے کوشاں نوجوان

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں