1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال کا بھارت کو دھچکا، فوجی مشقوں میں شمولیت سے انکار

جاوید اختر، نئی دہلی
11 ستمبر 2018

نیپال نے بھارت میں سات ایشیائی ملکوں کی پہلی چھ روزہ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری طرف نیپال نے چین کے ساتھ اسی ماہ کے اواخر میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/34gVI
Indien Unabhängigkeitstag Militär
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Rahi

نیپال کے اس اقدام نے بھارت کے ان سفارتی کوششوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں، جو وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر الگ تھلگ کرنے لیے کر رہا ہے۔ بھارت جنوب ایشیائی ملکوں کی تعاون تنظیم (سارک) کو بےاثر کر کے اس کی جگہ ’بے آف بنگال انیشی ایٹیو فار ملٹی سیکٹورل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن‘ ( بمسٹیک) کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
بمسٹیک ( BIMSTEC) ایک علاقائی تعاون تنظیم ہے۔ ابتدا میں یہ گروپ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا اور تھائی لینڈ پر مشتمل تھا۔ پھر میانمار بھی اس میں شامل ہوگیا، جس کے بعد اس کا نام بمسٹیک رکھا گیا۔ نیپال اور بھوٹان 2004ء میں اس کے مستقل رکن بنے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت سارک کی جگہ بمسٹیک کو زیادہ موثر بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں پاکستان کو الگ تھلگ کر سکے۔
گزشتہ ماہ نیپال میں بمسٹیک کی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے رکن ملکوں کی پہلی مشترکہ فوجی مشقوں کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ چھ روزہ بحری فوجی مشقیں مغربی بھارت کے پونے میں دس ستمبر سے شروع ہوگئی ہیں۔ لیکن عین وقت پر نیپال نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ نیپال کے روزنامہ کھٹمنڈو پوسٹ کے مطابق نیپالی فوج کا دستہ پونے کے لئے روانہ ہونے ہی والا تھا کہ حکمراں نیپالی کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنماؤں اور مختلف حلقوں کی طرف سے سخت نکتہ چینی کے بعد وزیر اعظم کے پی اولی نے فوجی مشق میں حصہ نہیں لینے کا اعلان کر دیا۔ ان فوجی مشقوں میں تمام رکن ملکوں سے تیس تیس جوانوں پر مشتمل دستوں کو شرکت کرنا تھی۔ ان فوجی مشقوں کا مقصد دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے بمسٹیک ملکوں کے مابین تعاون میں اضافہ کرنا ہے۔

Nepal - BIMSTEC Gipfeltreffen
تصویر: GEtty Images/AFP/N. Chitrakar

نیپال میں قدیم ہندو روایت ’چوپاڈی‘ کے خلاف قانون سازی
بھارت نے نیپال کے فیصلے پر ناراضی ظاہر کی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق بھارت نے نیپال کو خط بھیج کر مبینہ طور پر کہا ہے کہ اس نے اتفاق رائے سے منظور کردہ تجویز کی خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن کٹھمنڈو پوسٹ کے مطابق حکومت نیپال کا کہنا ہے کہ گوکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مشترکہ فوجی مشقوں کی تجویز پیش کی تھی لیکن بمسٹیک سربراہ کانفرنس کے دوران تمام رکن ملکوں نے اس کی متفقہ طور پر تائید نہیں کی تھی۔
مشترکہ فوجی مشقوں میں نیپال کی شرکت سے انکار کے حوالے سے اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری کنول سبل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ افسوس ناک ہے، نیپال کو بھارت کو بلا وجہ اشتعال دلانے میں خوشی ملتی ہے۔ نیپال نے بغیر سوچے سمجھے یہ قدم اٹھاکر بھارت کا اس کے اوپر سے اعتماد کم کر دیا ہے۔ اسے اس کا احساس اس وقت ہوگا جب مستقبل میں وہ کسی بحران میں مبتلا ہوگا۔ ‘‘ کنول سبل کا کہنا تھا، ’’نیپال کو بھارت سے تعلقات بگاڑنے کے بجائے انہیں بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔‘‘
بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیپال کے فوجی مشقوں میں شرکت سے انکار کرنے کے کئی اسباب ہیں۔ لیکن یہ بھارت کے لئے ایک سبق بھی ہے۔ اسے سیکورٹی تعاون کی حدود کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ بمسٹیک کے قیام کا اصل مقصد ہی فوت نہ ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بمسٹیک کا بنیادی مقصد رکن ملکوں کے مابین رابطہ کاری اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بمسٹیک کو ترجیح دینے کی بھارت کی کوشش کا اصل مقصد سارک کی اہمیت کو ختم کرنا ہے۔

آئندہ نیپالی حکومت کمیونسٹوں کی، بھارت کے لیے بُری خبر کیوں؟
یہ بات دلچسپ ہے کہ پچھلے ہفتے نیپال کے سابق وزیر اعلیٰ پشپ کمل دہل عرف پرچنڈ نے دہلی دورہ کے دوران انڈین کونسل آف ورلڈ افئیرز میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ’’موجودہ چیئرمین کی حیثیت سے نیپال کی خواہش ہے کہ سارک کا احیاء کیا جائے اور وہ اس کی ملتوی منسوخ کانفرنس کوجلد از جلد منعقد کرنے کے حوالے سے ماحول کو ساز گار دیکھتے ہیں۔‘‘ پرچنڈ کا مزید کہنا تھا، ’’سارک اور بمسٹیک ایک دوسرے کے متبادل نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔‘‘ نیپال کے سابق وزیر اعظم نے بھارت کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا، ’’خود مختاری، علاقائی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہئے اور داخلی مسائل میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جانی چاہئے۔ دوستانہ تعلقات کے لئے یہ لازمی ہے۔ مجھے یہ صاف صاف کہنے دیجئے کہ چھوٹے پڑوسیوں کے بھی اپنے احساسات ہوتے ہیں، جنہیں سمجھنے اور جن کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
خیال رہے کہ نیپال کسی زمانے میں دنیا کا واحد ہندو ملک تھا۔ شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد اس نے اپنے یہاں جمہوری آئین نافذ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے مبینہ طور پر اس کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لئے متعدد حربے اپنائے۔ 2015ء  میں نیپال میں آئے زبردست زلزلے کے باوجود ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ نیپال میں ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ بھارت کے اس مبینہ اقدام نے نیپالیوں کو اس سے متنفر کر دیا ہے۔

نیپال میں سڑک سے جانے کا راستہ صرف بھارت سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہذا عوام کی روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے اسے بڑی حد تک بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اب اس نے تجارتی روٹ پر بھارت کی اجارہ داری کو کم کرنے کے لئے اس کے دیرینہ حریف چین سے روابط بڑھانا شروع کردیے ہیں۔

نیپال نے چین کو اپنے یہاں چار بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ حالیہ دنوں میں چین اور نیپال کے درمیان اقتصادی تعلقات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس نے بھارت سے نیپال میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ملک کا درجہ چھین لیا ہے۔ چین نے پچھلے سال نیپال میں آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دونوں ملکوں میں دفاعی تعلقات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی کڑی کے تحت چین اور نیپال 17سے 26 ستمبر کے درمیان بارہ روزہ مشترکہ فوجی مشقیں کریں گے۔
تجزیہ کار نیپال اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھارت کے لئے تشویش ناک قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتو ں کا الزام ہے کہ مودی حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔