1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو کی نئی ترجیح: ایک سریع الحرکت فورس کا قیام

عاطف توقیر6 جنوری 2015

افغانستان میں جنگی مشن کے خاتمے کے بعد نیٹو کی توجہ یورپ کی جانب مبذول ہو رہے ہی اور وہ رواں برس اس کی نئی اور انتہائی سریع الحرکت فورسز کے قیام کی کوشش میں ہے، تاکہ روسی خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1EFYC
تصویر: Reuters/Eric Vidal

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے مختلف دفاعی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ 28 رکنی مغربی دفاعی اتحادی کی بنیادی توجہ رواں برس ایک سریع الحرکت فوج کا قیام ہے، تاہم اس کی بابت یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ اس کے لیے سرمایہ کون فراہم کرے گا۔

اس کثیرالملکی فوج کے قیام کے بارے میں ہدایات امریکی صدر باراک اوباما اور دیگر نیٹو رکن ریاستوں کے رہنماؤں نے ستمبر میں اپنے اجلاس کے موقع پر دی تھیں۔ اس سریع الحرکت فوج کو کسی بھی رکن ریاست کی جانب سے روسی خطرے سے تحفظ کی درخواست پر تعینات کیا جا سکے گا۔ ماہرین کے مطابق اس فورسز کے ذریعے نیٹو رکن ریاستوں کو روسی صدر ولادیمر پوٹن کے جارحانہ اقدامات اور منصوبوں سے محفوظ بنا کر ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔

NATO Jens Stoltenberg Ashraf Ghani PK
افغانستان میں جنگی مشن کے خاتمے کے بعد اب نیٹو کی توجہ یورپ کی سلامتی پر مرکوز ہےتصویر: picture-alliance/Dursun Aydemir / Anadolu Agency

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینز اشٹولٹن برگ نے نئی فورس کے قیام کے ساتھ ساتھ اتحاد کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’ہمارے مشترکہ دفاعی اتحاد کے لیے یہ نئے اقدامات سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔‘

اشٹولٹن برگ کا، جنہیں نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے یہ تیسرا مہینہ ہے، کہنا ہے کہ ان کی اعلیٰ ترین ترجیح یہ ہے کہ وہ اس منصوبے پر مکمل اور معینہ مدت کے اندر اندر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

ایک ایسے موقع پر جب افغانستان میں نیٹو کا جنگی مشن یکم جنوری کو اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، مغربی دفاعی اتحاد یورپ کی اسٹریٹیجک حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک نیا ایجنڈا ترتیب دے رہا ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں روس نے یوکرائنی علاقے کریمیا پر قبضہ اور مشرقی یوکرائن میں پراکسی لڑائی شروع کر کے مغربی دفاع اتحاد کو ایک نئے چیلنج کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ مائیکل براؤن کے مطابق، ’نیٹو کے لیے سن 2015ء کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ اپنی رکن ریاستوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے اپنے بنیادی مشن کو کس طرح یقینی بناتا ہے اور یورپ کی سلامتی کی ضمانت کیسے دیتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے، ’یہ اس لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیوں کہ اتحاد کے رہنماؤں نے گزشتہ کئی برسوں سے مشترکہ دفاع کے شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جب کہ روس نے کئی طرح کی غیر روایتی جنگی چالیں ترتیب دی ہیں اور ان سے نمٹے کے لیے مغربی دفاع اتحاد کو ایک نئے اور غیر روایتی جواب کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔‘