1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو کی طرف سے روس کے خلاف سخت تر اقدامات

بیرنڈ رِیگرٹ/ کشور مصطفیٰ2 اپریل 2014

نیٹو کے متعدد ممبر ممالک نے جن میں جرمنی بھی شامل ہے، لتھوانیا اور اسٹونیا کے فضائی رستوں میں انٹرسیپٹرز تعینات کرنے کی پیشکش ہے جو ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BaCA
تصویر: Reuters/Francois Lenoir

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو پر اس وقت دوہری ذمہ داری کا بوجھ ہے۔ ایک طرف اس نے اپنے اُن رکن ممالک کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا ہوا ہے جس کی سرحدیں روس سے ملتی ہیں، دوسری جانب اسے اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ خطے کی صورتحال مزید خراب نہ ہو۔ وفاقی جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے پولینڈ کی طرف سے کیے گئے اُس مطالبے کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے جس میں وارسا نے نیٹو دستوں کی بڑی تعداد کی پولینڈ کی سرحدوں پر مستقل تعیناتی پر زور دیا ہے۔

منگل یکم اپریل کو برسلز میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں یوکرائن کا بحران مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ اس موقع پر نیٹو کی جانب سے اس کے تمام رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے متفقہ طور پر یوکرائن کے تنازعے میں روس کے کردارکی وجہ سے ماسکو کے ساتھ تمام شہری اور عسکری تعاون معطل کردینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ساتھ ہی اٹھائیس ممالک کے اس عسکری اتحاد نے فوجی ماہرین سے مشرقی یورپی ممالک کے دفاع کو بہتر بنانے کے لیے ایک مؤثر اور جامع حکمت عملی تیار کرنے کو کہا تھا۔ تاہم پولینڈ ان اقدامات سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف مزید سخت اقدامات کیے جانے چاہییں۔

Belgien NATO Außenminister Treffen in Brüssel Frank-Walter Steinmeier und Maia Panjikidze
پولینڈ کا مطالبہ مناسب نہیں ہے: اشٹائن مائیرتصویر: Reuters

وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پولستانی وزیر خارجہ راڈیک سکروسکی کا پولینڈ کی سرحدوں پر مستقل طور پر نیٹو دستوں کی تعیناتی کے مطالبے پر جرمن وزیر خارجہ اشٹائن مائر کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ ہم اس بارے میں کافی صلاح و مشورہ کر چُکے ہیں کہ ہمیں موجودہ صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح اور مناسب اقدام نہیں ہوگا۔‘‘

نیٹو کے اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مغربی دفاعی اتحاد کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے کہا کہ نیٹو کے تمام ممبر ممالک نے متفقہ طور پر روس کے ساتھ سول اور ملٹری تعاون منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم نیٹو روس کے ساتھ سفارتی رابطہ قائم رکھنے کے لیے تیار ہے۔ راسموسن کا کہنا تھا، ’’میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی یورپ میں حقیقی طور پر فوجی جھڑپوں اور بحران کا متمنی ہے۔ ہمیں سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہم اپنے اتحادیوں اور اپنے عوام کوتحفظ فراہم کرنے اور ان کا دفاع کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ہم تمام ضروری اقدامات کریں گے۔‘‘ راسموسن نے یہ بات بالٹک کی ریاستوں اور پولینڈ کے تناظر میں کہی، جن کی سرحدیں روس سے ملتی ہے۔

Lettland Kampfjets NATO Patrouille
نیٹو کے متعدد ممبر ممالک نے جن میں جرمنی بھی شامل ہے، لتھوانیا اور اسٹونیا کے فضائی رستوں میں انٹرسیپٹرز تعینات کرنے کی پیشکش ہےتصویر: Normunds Mežiņš

بالٹک کے لیے مزید طیارے

جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے یوکرائن کے بحران کو گزشتہ چند دہائیوں کا سنگین ترین بحران قرار دیا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد کی طرف سے گزشتہ دس سالوں سے بالٹک کی ریاستوں کی حفاظت کے لیے فضائی نگرانی کا عمل جاری ہے، یوکرائن کی صورتحال کے پیش نظر اس نگرانی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ نیٹو کے متعدد ممبر ممالک نے جن میں جرمنی بھی شامل ہے، لتھوانیا اور اسٹونیا کے فضائی رستوں میں انٹرسیپٹرز تعینات کرنے کی پیشکش ہے جو ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم نیٹو ذرائع سے یہ اشارہ بھی ملا ہے کہ فی الحال ان اقدامات کی ضوروت محسوس نہیں کی جا رہی کیونکہ روس نے اب تک فضائی حوالے سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ جبکہ فضائی نگرانی کرنے والے اواکس طیاروں کی تعداد پہلے ہی سے پولینڈ اور رومانیا میں بڑھا دی گئی ہیں اور امریکا نے بھی پولینڈ میں مزید جنگی طیارے اور 300 فوجی تعینات کیے ہیں۔ واشنگٹن میں پینٹاگون کے ذرائع کے مطابق غالباً رومانیہ میں بھی امریکی فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا جائے گا اور جرمنی بھی بالٹک سی کی نگرانی کے لیے ایک اور بحری جہاز فراہم کرسکتا ہے۔