نیوزی لینڈ: پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے خلاف حکومتی منصوبہ
19 جولائی 2015ویلنگٹن سے اتوار انیس جولائی کے روز ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق کافی زیادہ امکان ہے کہ سپر مارکیٹوں میں شاپنگ کے وقت خریداروں کو مفت ملنے والے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی نیوزی لینڈ میں جلد ہی ماضی کا قصہ بن جائے گی۔
نیوزی لینڈ کے وزیر ماحولیات نِک اسمتھ نے آج اتوار کے روز بتایا کہ مروجہ قوانین کے تحت اس ملک میں پلاسٹک کے بہت پتلے شاپنگ بیگز، جنہیں عرف عام میں ’شاپر‘ بھی کہا جاتا ہے، اور اشیائے خوراک کی پیکنگ کے لیے استعمال ہونے والے ریپرز کو ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے ملک میں پلاسٹک کے اس کوڑے کی پیداوار زیادہ ہوتی جا رہی ہے، جس سے دراصل بچا جا سکتا ہے۔
وزیر ماحولیات کے مطابق حکومت نے ایک ایسا پروگرام تیار کیا ہے، جس کے تحت ملک میں پلاسٹک بیگز کی ری سائیکلنگ کا ایک پورا انفراسٹرکچر تیار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پلاسٹک کے ان بیگز کی تیاری میں استعمال ہونے والے پولیمرز کی درآمد کم کر دی جائے گی اور ابتدائی طور پر آک لینڈ میں پرانے شاپنگ بیگز کی ری سائیکلنگ کرنے والے ایک نئے پلانٹ کے لیے سات لاکھ ڈالر کی سرکاری گرانٹ دی جائے گی۔
نِک اسمتھ کے بقول اس حوالے سے آسٹریلیا میں مکمل کی جانے والی اس اسکیم کو مثال بنایا گیا ہے، جس کی مدد سے وہاں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی وجہ سے پیدا ہونے والے کوڑے میں سالانہ بنیادوں پر ہزارون ٹن کی کمی کی جا چکی ہے۔
نیوزی لینڈ کے وزیر ماحولیات نے مزید کہا کہ طویل المدتی بنیادوں پر حکومت کا ارادہ ہے کہ ملک کے 70 فیصد تک شہریوں کو یہ سہولت حاصل ہو کہ ان کے گھروں سے زیادہ سے زیادہ 20 کلومیٹر تک کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی ایسا انتطام موجود ہو، جہاں وہ پلاسٹک کے پرانے شاپنگ بیگز جمع کرا سکیں۔
نِک اسمتھ نے کہا، ’’یہ اقدام پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی معمولی لیکن لازمی قیمت متعارف کرانے کے مقابلے میں زیادہ بہتر متبادل ہے۔ اس لیے کہ نیوزی لینڈ میں ہر سال پلاسٹک کا جتنا کوڑا پیدا ہوتا ہے، اس میں ان بیگز کا تناسب محض 10 فیصد بنتا ہے اور یہ مسئلہ کافی حد تک ری سائیکلنگ سے حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘