1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

نیا بجٹ: حکومتی اعداو شمار کتنے قابل اعتبار ہیں؟

13 جون 2024

گزشتہ سال بیشتر معاشی اہداف حاصل نہ کر سکنے والی حکومت معیشت میں بہتری کی دعویدار ہے۔ غیر جانب دار اقتصادی تجزیہ کار خاص طور پر افراط زر کے کم ہونے اور شرح نمو میں اٖضافے کے حکومتی دعوؤں پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4gzBH
Pakistan Islamabad | Finanzminister Muhammad Aurangzeb präsentiert Bundeshaushalt
تصویر: Pakistan Finance Ministry Press Service/AP/picture alliance

 ماہر اقتصادیات خالد رسول نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں  سرکاری معاشی اعدادوشمار مرتب کرنے کا عمل کئی وجوہات کی بنا پر 'کمپرومائزڈ‘ ہی ہوتا ہے، ''خاص طور پر زرعی گروتھ ظاہر کرنے کے معاملے میں حکومتیں اعدادوشمار کو آسانی سے تبدیل کر سکتی ہیں، کیونکہ ان کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کی زندگی کو متاثر کرنے والے امور کے بارے میں جو اکنامک انڈیکیٹرز حکومتیں بتاتی ہیں،ان کا اظہار ہمیں عام لوگوں کی زندگیوں میں نظر نہیں آتا۔‘‘

پاکستانی معیشت کو سمجھنے کے لیے تین اہم دستاویزات

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا پتہ چلانے کے لیے عام طور پر تین دستاویزات کو اہم ترین تصور کیا جاتا ہے۔ ان میں ایک تو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ ہوتی ہے، جو ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال سے متعلق آگاہی دیتی ہے۔ دوسرے نمبر پر اکنامک سروے ہے جو گزرے ہوئے مالی سال میں معیشت کی کارکردگی پر روشنی ڈالتا ہے اور تیسرے نمبر پر بجٹ ڈاکومنٹس ہیں جو اگلے مالی سال کے بارے میں حکومتی مالی پالیسیوں، آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات اور ترقیاتی ترجیحات کے بارے میں بتاتے ہیں۔

پاکستان میں تقریبا ہر حکومت عام طور پر اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے اعدادوشمار کی جادوگری کو اس طرح استعمال کرتی رہی ہے کہ عام آدمی کو آدھا گلاس بھرا ہوا تو نظر آتا ہے لیکن اسے آدھے گلاس کے خالی ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

پاکستان: آئی ایم ایف سے طویل المدتی بیل آؤٹ کا خواہاں

نیا پاکستانی بجٹ: جون 2025 تک 13 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف

کئی حکومتی اعدادوشمار کو درست ماننا آسان نہیں ہے۔

پاکستان کے ممتاز  ماہر معاشیات ڈاکٹر اکمل حسین نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال اکنامک سروے میں بتائے جانے والے دو اعداوشمار ایسے ہیں، جن کو درست ماننا بہت مشکل ہے۔ ان کے بقول، ''حکومت دعویٰ تو کر رہی ہے کہ افراط زر اڑتیس فی صد سے گیارہ اعشاریہ آٹھ فی صد تک نیچے آ گئی ہے لیکن اس نے یہ اعدادوشمار کیسے نکالے ہیں؟ اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔‘‘

ڈاکٹر اکمل نے مزید کہا، ''ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ زرعی اجناس کی پیداوار بڑھی، مارکیٹ میں ان کی سپلائی بہتر ہوئی اور قیمتیں کم ہو گئیں لیکن دوسری طرف کہتی ہے کہ چاول برآمد کر دیے گئے۔ ایک طرف گندم کی بمپر کراپ کا تو ذکر ہے لیکن دوسری طرف مہنگی اور غیر میعاری گندم کی بڑی تعداد میں درآمد اور اس کے اثرات پر بات نہیں کر رہی۔ مہنگی گندم منگوانے والا سستی گندم کیسے بیچ رہا ہے۔ اس کا ہمیں کچھ اندازہ نہیں۔‘‘

ڈاکٹر اکمل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''حکومت اس بات پر خوش ہے کہ پاکستان روپیہ ڈالر کے مقابلے میں دو سو اسی روپے پر مستحکم ہے لیکن وہ یہ نہیں بتا رہی کہ یہ روپیہ ایک سو روپے سے دو سو اسی تک پہنچا ہے اسے ہائی ویلیو پر برقرار رکھنا کارنامہ نہیں بلکہ اسے اس کی اصل ویلیو پر لانا ہی کمال ہوگا۔‘‘

ڈاکٹر اکمل حسین کے مطابق حکومت کہتی ہے کہ ایک سال پہلے اس کے پاس صرف چند ہفتے کی ضروریات پوری کرنے کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے لیکن اب اس کے خزانے میں نو ارب ڈالر جمع ہیں  لیکن حکومت کو یہ بھی تو بتانا چاہیے کہ اگلے ایک سال میں انہوں نے انتیس ارب ڈالر کا قرضہ کیسے ادا کرنا ہے؟ ، ''ملکی برآمدات تو چھبیس ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ حکومت فخر کر رہی ہے کہ منفی گروتھ سے باہر آ گئے ہیں لیکن یہ بھی تو دیکھے کہ جتنی گروتھ ہو رہی ہے اتنی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ اصل میں دیکھنا یہ چاہیے کہ اصل گروتھ کتنی ہے۔‘‘

پاکستان کے مالی مسائل کا حل کیا ہے؟

ڈاکٹر اکمل حسین کے بقول ملکی اقتصادی بحران کا حل یہ ہے کہ ہائی جی ڈی پی گروتھ کی طرف آیا جائے۔ ان کے بقول پچھلے بیس تیس سالوں میں پاکستان کی اوسط شرح نمو پانچ فی صد سے زیادہ رہی ہے۔

گزشتہ سال خیبر پختونخوا کی صورتحال باعث تشویش رہی، ایچ آر سی پی

پاکستان: داسو ہائیڈرو پاور کی تعمیر کے لیے ایک بلین ڈالر قرضےکی منظوری

ڈاکٹر اکمل کا ہنا ہے، ''ہمیں ایسی پالیسی بنانا چاہیے، جس سے ملک کی گروتھ پانچ چھ فی صد تک آ جائے۔ اسی صورت میں غربت میں کمی ہو گی، لوگوں کو روزگار ملے گا، قرضوں کا بوجھ کم ہوگا۔ جب آپ ہائی گروتھ کی طرف جائیں گے تو آپ کی امپورٹس بڑھیں گی۔ تجارتی خسارے میں اضافہ ہو گا لیکن حکومت بالکل اس سے بالکل نہ گھبرائے۔ قرضے لے کر قرضے ادا کرنے کی پالیسی سے اب باہر نکلنا ہوگا۔ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ دستیاب وسائل کو پروڈکٹیو شعبوں میں ہی خرچ کیا جانا چاہیے۔‘‘

نئے مالی سال کا بجٹ، عوامی امنگوں پر پورا اترے گا؟

آئی ایم ایف بھی ایک مسئلہ ہے

ڈاکٹر اکمل حسین کہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) امریکہ کے زیر اثر ہے، امریکہ کو غزہ، یوکرائن اور افغانستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کی ضرورت ہے وہ پاکستان کو ترقی کے راستے پر تو نہیں آنے دے گا لیکن ڈیفالٹ بھی نہیں ہونے دے گا، ''ہم قرضے لے کر قرضے ادا کرتے رہیں گے۔ ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھ کر ان کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ویسے ہی ترقی کر سکتا ہے جیسا دوسرے ملکوں کی ہے۔ اگر وہ ہمیں تجارتی خسارے سے ہی ڈراتے رہیں گے تو حالات کیسے بدلیں گے؟‘‘

’حکومت اپنے ٹارگٹ پورے نہیں کر سکی‘

ایک اور اقتصادی ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گر ہم حکومتی اعدادوشمار کو درست بھی مان لیں تو ہمیں اقتصادی سروے بتاتا ہے کہ حکومت افراط زر، بجٹ خسارے اور شرح نمو سمیت اپنے بہت سے ٹارگٹ پورے کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی بھی ایک پریشان کن امر ہے۔‘‘

ڈاکٹر شاہد کے بقول ، ''حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر فخر کر رہی ہے لیکن ان اطلاعات کی بھی تحقیقات ہونا چاہییں کہ پاکستان سے باہر جانے والا کا دھن سفید ہو کر ان ترسیلات کی صورت میں تو واپس پاکستان نہیں آ رہا۔ چھبیس ملین بچوں کا اسکول نہ جانا فکرمندی کی بات ہے۔ پاکستان کے مقامی بینک اپنا اصل کام ( زراعت، صنعت، صارفین کو قرضے دینا ) چھوڑ کر حکومت کو زیادہ شرح سود پر قرضے دے رہے ہیں۔ پاکستان میں بچتیں کم ہو رہی ہیں۔ فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) نے پندرہ ہزار ارب روپے کم وصول کیے ہیں۔ اگر یہ وصول کر لیں تو بجلی اور پٹرول کے نرخ بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ہم مسئلہ حل کرنے کی بجائے مئسلے کو ملتوی کرتے جا رہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں اقتصادی فیصلے کون کرتا ہےِ؟

پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ملک کے اقتصادی فیصلے سویلین حکومت نہیں کر رہی کئی بڑی حکمران جماعتوں کو بجٹ کے امور پر اس بار موثر طریقے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

اس ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی نے بتایا، ''یوں لگتا ہے کہ فیصلہ ساز قوتوں کو معاشی معاملات کا درست ادراک نہیں ہے اور انہیں غلط طور پر گائیڈ کیا جا رہا ہے۔‘‘

کیا پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کی شرائط پر پورا اترے گا؟

پاکستانی بجٹ: عوام کو بہتری کی کوئی توقع نہیں؟

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والا اکنامک سروے جس دور کی اقتصادی کارکردگی کو پیش کر رہا ہے وہ موجودہ حکومت کے علاوہ پی ڈی ایم اور نگران حکومت کے دور پر محیط تھا۔

انگریزی روزنامہ ڈان نے اکنامک سروے کے حوالے سے اپنے اداریے میں لکھا کہ پچھلے سال کی طرح رواں مالی سال شہریوں کے لیے بہت دباؤ کا رہا ہے کیونکہ بگڑتے ہوئے معاشی حالات، کم ہوتی حقیقی اجرت اور بلند افراط زر کم متوسط آمدنی والے گھرانوں کے لیے کمر توڑ ثابت ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں جیت کہاں ہے؟

امید کی کرن صرف یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کہلانے والا جہاز جہاں راستے سے بہت دور جا چکا ہے، وہ اب بھی راستہ بدل سکتا ہے، بشرطیکہ حکمران طبقہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر دیکھے۔

پاکستان میں سولر انرجی کی بڑھتی مانگ، ضرورت یا مجبوری؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں