1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نگورنو کاراباخ میں جھڑپیں بند، فائربندی شروع

عابد حسین5 اپریل 2016

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ کاراباخ علیحدگی پسندوں کے ساتھ فائربندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ نگورنو کاراباخ کے حکام نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IPdX
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Stepanyan

آرمینیا اور آذربائیجان نے نگورنوکاراباخ کے متنازعہ علاقے میں جاری جھڑپوں کو فوری طور پر روکنے اور جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ آرمینیا کی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا کہ کہ آذربائیجان اور آرمینیا کی افواج نے محاذ پر عسکری کارروائیوں کو معطل کر دیا ہے اور آج پانچ اپریل بروز منگل کی دوپہر سے فائربندی شروع ہو گئی ہے۔ بیان کے مطابق اِس انتظام پر تمام متحارب گروپ متفق ہیں۔ ایسا ہی بیان آذربائیجان کی وزارتِ دفاع نے بھی جاری کیا ہے اور اُس میں بھی فائربندی معاہدے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

حالیہ برسوں میں نگورنو کاراباخ کے تنازعے کی یہ شدید ترین جھڑپیں ہیں۔ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں آذری حکومت کے مطابق اُس کے سولہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور کاراباخ کے علیحدگی پسندوں کے مطابق اُن کے بیس جنگجوؤں کی موت واقع ہوئی ہے۔ آج منگل کے روز فائربندی شروع ہونے سے قبل بھی آذری فوج اور کاراباخ فائٹرز کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔ آرمینیا کے صدر سیرژ سارکسیان نے سلامتی و تعاون کی یورپی تنظیم کو پہلے ہی مطلع کر دیا تھا کہ اگر جھڑپیں جاری رہتی ہیں تو آذربائیجان اور اُن کے ملک کے درمیان جنگ کی شروع ہو جائے گی۔ سارکسیان کل بدھ کے روز جرمنی پہنچ رہے ہیں اور وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بھی اِس تنازعے کی تازہ صورت حال پر تفصیل سے گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Aserbaidschan Bergkarabach Konflikt Raketenbeschuss
نگورنو کاراباخ میں منگل پانچ اپریل سے جنگ بندی شروع ہو گئی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے اپنی ویب سائٹ پر بیان کیا ہے کہ حالیہ جھڑپوں میں 170 فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ہے یا یہ صرف آذری فوجی ہیں۔ دوسری جانب آج آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں نگورنوکاراباخ کے تنازعے کے لیے قائم رابطہ گروپ کی ملاقات بھی طے ہے۔ اس رابطہ گروپ میں روس، امریکا اور فرانس شامل ہیں۔ رابطہ گروپ کے سفارت کار یورپی سکیورٹی و تعاون کی تنظیم OSCE کے اجلاس میں شریک ہو کر اِس تنازعے کی تازہ ترین صورت حال پر گفتگو کریں گے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں مارک ایغو نے اپنے جرمن ہم منصب فرانک والٹر اشٹائن مائر سے ملاقات کے بعد فریقین سے کہا ہے کہ تنازعے کا حل فوجی ایکشن سے ممکن نہیں بلکہ مذاکراتی عمل جاری رکھنا ضروری ہے۔

آذربائیجان کی جغرافیائی حدود میں واقع نگورنوکاراباخ مسیحی اکثریتی علاقہ ہے اور اقوام متحدہ اِس کو آذری علاقہ تصور کرتی ہے۔ اِس علاقے کی آرمینیائی نژاد مسیحی آبادی کو آرمینیا کا مالی و عسکری تعاون حاصل ہے۔ اِس علاقے پر ان دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تنازعہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اِس متنازعہ علاقے پر سن 1994 میں بھی ایک جنگ ہو چکی ہے۔ اور تب آذربائیجان کو جنگ بندی کی ڈیل پر تسلیم کرنا پڑی تھی اور اُس کی وجہ اُس وقت کمزور اقتصادی حالات تھے۔ آج کا آذربائیجان قدرے متوازن معاشی حالات رکھتا ہے اور گزشتہ پندرہ برسوں سے تیل اور گیس کی برآمد سے اُس نے مجموعی حالات کو بہتر بنا لیا ہے۔ اِس عرصے میں اُس نے جدید ہتھیار بھی خرید کر اپنی فوج کو توانا کر لیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید