1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’نوری نت‘ 75 برس کے ہو گئے، خصوصی انٹرویو

عصمت جبیں، اسلام آباد11 مئی 2015

معروف پاکستانی اداکار اور ماضی کے انتہائی مشہور ولن مصطفٰی قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کی تباہی کا سبب بھی حکومتیں بنیں۔

https://p.dw.com/p/1FO19
تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستانی صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں پیدا ہونے والے مصطفٰی قریشی آج پیر گیارہ مئی کو اپنی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس مناسبت سے ڈی ڈبلیوکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان آج ’مسائلستان‘ بن چکا ہے، جس کی وجہ حکومتوں کی نااہلی ہے۔ اس کے علاوہ وہ کرپشن جو پہلے کبھی کم کم ہی نظر آتی تھی، اب اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہے۔

مصطفٰی قریشی نے کہا کہ پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے خونریز دہشت گردی کا سامنا بھی ہے اور عوام مایوسی کا شکار ہیں۔ ’آج پاکستانی ایک ایسی قوم ہیں، جن کے پاس کوئی رہنما نہیں ہے۔‘

عشروں پہلے اپنے بہت مصروف فلمی کیریئر اور لاہور کے پاکستانی فلم انڈسٹری کا مرکز ہونے کی وجہ سے لالی وُڈ میں مستقل رہائش اختیار کر لینے والے اس فنکار کے مطابق اصولی طور پر جمہوریت اچھی چیز ہے لیکن پاکستان کو نام نہاد جمہوریت نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ’’پاکستان کو جمہوریت سے فائدے کی بجائے نقصان اس لیے پہنچا کہ یہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں اور جو آئی وہ نام نہاد جمہوریت تھی۔‘‘

ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے ایک آرٹسٹ کے طور پر طالب علمی کے زمانے میں ہی وابستہ ہو جانے والے مصطفٰی قریشی نے ڈی ڈبلیوکے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا، ’’پاکستان میں ماضی کی شاندار فلم انڈسٹری کی تباہی ایک قومی المیہ ہے۔ کسی زمانے میں صرف لاہور میں سالانہ ڈیرھ سو سے لے کر پونے دو سو تک فلمیں بنتی تھیں۔ اب ان فلموں کی تعداد صرف تین یا چار رہ گئی ہے۔ لاہور میں بارہ فلم اسٹوڈیوز تھے اور کراچی میں پانچ۔ اب ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچا۔ پہلے ملک میں ساڑھے نو سو کے قریب سینما گھر تھے۔ پھر ان کی جگہ پلازے بنا شروع ہو گئے۔ اب پاکستان میں سینما گھروں کی مجموعی تعداد قریب ڈیڑھ سو رہ گئی ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستانی فلمی صنعت کی تباہی کے اسباب کیا ہیں، مصطفٰی قریشی نے کہا، ’’حکومتوں نے کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ پہلے فلم انڈسٹری حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کرتی تھی، جو اب اسے نہیں ملتا۔ لیکن حکومت نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہم نے حکام کو تجاویز دیں، حکمرانوں نے وعدے بھی کیے لیکن ان وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا۔‘‘

مصطفٰی قریشی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ انہیں ریڈیو پاکستان حیدر آباد پربطور فنکار پہلی بار کام کرنے پر دس روپے معاوضہ ملا تھا۔ ان کی پہلی فلم ماضی کے انتہائی کامیاب کیمرہ مین رضا میر کی اردو میں بنائی گئی فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ تھی جو بہت ہٹ ہوئی تھی۔ وہ شروع میں فلموں میں کام نہیں کرنا چاہتے تھے اور کئی ہفتوں تک انکار کے بعد ’’لاکھوں میں ایک‘‘ میں اداکاری پر تیار ہوئے تھے۔ پھر ان کی کئی اردو فلمیں انتہائی کامیاب رہیں تو ڈھائی سال تک وہ شوٹنگ کے لیے لاہور آتے اور پھر واپس حیدر آباد چلے جاتے تھے۔

Paksitan Schauspieler Mustafa Qureshi
مصطفیٰ قریشی نے سینکڑوں فلموں میں کام کیاتصویر: DW/I. Jabeen

لڑکپن میں فوج میں بھرتی ہونے کے خواہش مند اس فنکار نے فلمی اداکار کے طور پر اپنی مصروفیات بہت بڑھ جانے کے بعد ریڈیو پاکستان کی پروگرام پرڈیوسر کی ملازمت سے استعفٰی دے دیا اور لاہور منتقل ہو گئے۔ تب تک وہ پنجابی فلموں کے بھی انتہائی مصروف اداکار بن چکے تھے۔ اردو فلموں میں مصطفٰی قریشی کی جوڑی محمد علی اور ندیم جیسے کامیاب ہیروز کے ساتھ بنتی تھی جبکہ پنجابی فلموں میں زیادہ تر ہیرو مرحوم سلطان راہی اور ولن وہ خود ہوتے تھے۔ قریشی کے بقول انہوں نے سلطان راہی کے ساتھ قریب پچیس چھبیس برس تک کام کیا۔

مجموعی طور پر اپنے کیریئر میں ساڑھے چھ سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں اداکاری کرنے والے مصطفٰی قریشی نے بتایا کہ ان کی پہلی پنجابی فلم ’’چار خون دے پیاسے‘‘ تھی، جو بہت زیادہ پسند کی گئی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سلطان راہی کے ساتھ کام کے حوالے سے میرا ریڈیو کا تجربہ بہت مددگار ثابت ہوا تھا۔ راہی بہت اونچا بولنے والے ہیرو تھے، میں نے نیچی آواز میں آہستہ آہستہ بات کرنے کا انداز اپنایا تو فلم بینوں کو یہ ولن بہت پسند آیا۔ یہ سلسلہ انتہائی کامیاب رہا، مثال کے طور پر سپر ہٹ پنجابی فلم مولا جٹ میں نوری نت کا کردار۔‘‘

بھارتی فلموں میں کام کرنے کی پیشکش سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میری کئی فلمیں بھارت میں نقل کی گئی ہیں۔ مجھے اداکاری کی پیشکش بھی ہوئی تھی لیکن میرے اپنے تحفظات تھے۔ میری رائے میں بھارتی فلموں میں کام کرنے والے کئی سٹار پاکستانی ایکٹر وہاں جا کر زیرو ہو گئے تھے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے محمد علی کا بھارت میں منوج کمار کی فلم ’کلرک‘ میں کام کرنا، جو غیر متاثر کن تھا۔ آج کل علی ظفر بھارت میں بھی بڑے کامیاب ہیں۔ عام طور پر ایسا کم ہی ہوتا ہے۔‘‘

اس لیجنڈری اداکار نے یہ بھی کہا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فنکار کے لیے کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ ’’لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہوتا۔ فنکار کی تو سرحدیں ہوتی ہیں، لیکن فن کی نہیں۔ اگر مجھے دوبارہ بھارت میں اداکاری کی آفر کی گئی، پروڈکشن ٹیم، کہانی اور اسکرپٹ اچھے ہوئے تو بھارت جا کر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن میں چاہوں گا کہ ایسی صورت میں یہ بات میرے لیے اعزاز قرار دیے جانے کی بجائے، بھارت کے لیے اعزاز ہونا چاہیے۔‘‘

مصطفٰی قریشی نے بتایا کہ ان کی آخری فلم ’’سلطنت ‘‘ دو ہزار تیرہ میں ریلیز ہوئی تھی۔ وہ اب تک پاکستانی صدر کی طرف سے دیا جانے والا تمغہ حسن کارکردگی، بہت سے قومی ایوارڈز اور نگار اور گریجویٹ ایوارڈز جیسے کئی اعزازت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں امریکا اور برطانیہ سمیت کئی بیرونی ممالک میں بھی متعدد اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ مصطفٰی قریشی نے شادی روبینہ قریشی نامی ریڈیو آرٹسٹ سے کی، جو اپنی شادی اور اپنے شوہر کو ملنے والی شہرت سے بہت پہلے سے ہی بڑی مشہور تھیں اور ’’بلبل مہران‘‘ کہلاتی تھیں۔

مصطفٰی قریشی نے اس انٹرویو کے اختتام پر اپنی سالگرہ کی نسبت سے پاکستان کے اندر اور باہر تمام پاکستانیوں کے نام اپنے پیغام میں کہا، ’’پاکستان میں غربت، مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی جیسے جتنے بھی مسائل پائے جاتے ہیں، ان سب کے باوجود ہمارا گھر تو یہی ہے، جہاں ہماری جڑیں ہیں۔ میرا پیغام یہی ہے کہ تمام پاکستانی پاکستان کے لیے کام کریں اور اپنے وطن کے ’ہارڈ امیج کو سافٹ‘ بنائیں۔‘‘