نودریافت شدہ انواع حیات کو لاحق خطرات
19 دسمبر 2017جنوب مشرقی ایشائی ممالک میں سے اکثرممالک Mekong کے دریا سے مستفید ہوتے ہیں جب کہ یہاں مہم جوئی کے لیے بھی لوگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ، دنیا میں حیاتیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ متنوع علاقوں میں سے ایک ہے۔ یعنی یہاں مختلف اقسام کی آبی حیات کی دریافت دنیا میں سب سے زیادہ ہوئی ہے۔
بھارت میں زمین کے لیے انسانوں کا اب جنگلی حیات سے بھی تصادم
بنگلہ دیشی کیمپ میں چار روہنگیا ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلے گئے
چھپکلی کے اعضائے تناسل یا خوش قسمتی کی نایاب جڑی بوٹی؟
سائنس دانوں کے مطابق ہر سال کئی نئی انواعِ حیات اسی خطے میں دریافت کی جاتی ہیں، جن میں تھائی لینڈ، میانمار، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے ممالک شامل ہیں۔ تاہم ماہرین کی جانب سے ان تحفظات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ کئی اقسام کی اسپیشیز دریافت سے قبل ہی معدوم ہو جائیں گی۔ اس کی وجہ سڑکوں کے بچھتے جال، ڈیموں کی تعمیر اور غیر قانونی طور پر جنگلی حیات کا شکار اور تجارت ہے۔ یہ سب نہ صرف جنگلوں بلکہ دریاؤں کے ماحولیاتی نظام کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق اس خطے میں صرف سن 2016 میں ہی تقریبا 115 نئی اقسام کی حیات دریافت کی گئی۔ ان میں سے 11خشکی اور تری دونوں پر رہنے والے جانور، مچھلیوں کی دو اقسام، 11 رینگنے والے جانور ، 88 نباتاتی اور تین ممالیہ جانوروں کی اقسام شامل ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سے تعلق رکھنے والے لی پوسٹن کہتے ہیں، ’’گو کہ اس خطے میں انواعِ حیات کی زندگیوں اورٹھکانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، اس کے باوجود ہر سال نئی دریافت ہونے والی انواع ہمیں حوصلہ دیتی ہیں۔ لیکن ہمیں ان کے ٹھکانوں کو تحفظ دینے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان کو غیر قانونی طور پر کی جانے والی حیاتیاتی تجارت سے بچانا ہوگا۔‘‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس خطے میں جو نئی حیاتیاتی انواع دریافت ہوئی ہیں اس میں گھوڑے کی نعل سے مشابہت رکھنے والی چمگادڑ اور گھونگے خور کچوے شامل ہیں جنہیں تھائی لینڈ کی ایک مقامی مارکیٹ میں فروخت کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح مگرمچھ سے مشابہت رکھنے والی چھپکلی، جو ویتنام کے جنگل سے دریافت ہوئی، وہ بھی مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کی گئی تھی جسے سائنس دانوں نے ایک نئی دریافت قرار دیا ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف کے مطابق گزشتہ 20 برسوں میں Mekong کے اس خطے سے ڈھائی ہزار سے زائد نئی حیاتیاتی انواع دریافت کی جا چکی ہیں جب کہ اوسطاﹰ ہر ہفتے دو نئی اسپیشیز کی دریافت ہو رہی ہے۔