نصف سے زائد برطانوی خواتین کو جنسی ہراس کا سامنا
10 اگست 2016سروے میں شامل تقریبا ہر پانچ میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ان کے باس ہی تھے۔ ایک چوتھائی خواتین کا جواب یہ تھا کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ اگر وہ ہراساں کیے جانے کی شکایت کرتی ہیں تو ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے گا یا اس پر یقین کیا جائے گا۔
برطانیہ میں ٹریڈ یونین کانگریس اور خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم ’ایوری ڈے سیکسزم’ کی رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سے چوبیس سال کی خواتین کے ساتھ دیگر عمر والی خواتین کے مقابلے میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے زیادہ واقعات سامنے آئے۔ ان خواتین میں سے دو تہائی کو دفتر میں پریشان کیا گیا۔ ٹریڈ یونین کانگریس میں صنفی مساوات کے شعبے کی سربراہ ایلس ہوڈ نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ یہ ہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں اور اسے لمحہ فکریہ سمجھا جانا چاہیے۔ ملازمت کی جگہ پر خواتین کو جنسی ہراس کا سامنا آج بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس سے ابھی تک پوری طرح نمٹا نہیں گیا۔‘‘ ایلس نے مزید کہا کہ بہت سی خواتین نے محض اس لیے ایسے واقعے کی رپورٹ نہیں کی کیونکہ وہ خائف تھیں اور انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ کوئی ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ چند خواتین کو یہ خطرہ تھا کہ ایسا کرنے سے ان کے کیرئیر پر اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ سروے رپورٹ برطانیہ بھر میں ایک ہزار پانچ سو تینتیس خواتین کی آراء پر مشتمل ہے جن میں 18 سے 65 سال عمر کے درمیان کی خواتین شامل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں۔ ان میں بیہودہ ہنسی مذاق، خاتون کو نا مناسب طور پر چھونا یا پھر اسی طرز کا کوئی تعلق قائم کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔
سروے میں شامل ایک تہائی خواتین کے مطابق دفتر میں انہیں بیہودہ لطائف سنائے گئے۔ جبکہ ایک چوتھائی خواتین کے مطابق انہیں ان کی مرضی کے بغیر چھوئے جانے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹی یو سی کی ایلس ہڈ کا موقف ہے کہ آجروں کو چاہیے کہ وہ جنسی ہراس کے واقعات سے سختی سے نمٹیں اور اس حوالے سے دفتری عملے کی تربیت کی جائے۔ اس کے علاوہ دفتری نظام کے کلچر میں تبدیلی لانے اور مضبوط پالیسیاں بنانے کی بھی ضرورت ہے۔