1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناسا کا اسپیس ایکس مشن انٹرنیشنل اسٹیشن پہنچ گیا

17 نومبر 2020

یہ پہلی بار ہے کہ خلاباز کسی نجی کمپنی کی کمرشل پرواز کے ذریعے چھ ماہ قیام کے لیے اسپیس اسٹیشن پہنچے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3lOnw
NASA/SpaceX Mission zur ISS
تصویر: Joe Skipper/REUTERS

یہ مشن زمین سے پیر کو روانہ ہوا۔ پرواز میں سوار چار خلاباز منگل کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) پہنچ گئے۔

یہ خلاباز کرہ ارض کے گرد مدار میں گھومنے والی اس خلائی لیبارٹری میں چھ ماہ قیام کریں گے۔

انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر پہلے سے تین خلاباز موجود ہیں۔ یوں اب وہاں موجود خلابازوں کی تعداد سات ہوگئی ہے۔

نئے چار رُکنی عملے میں تین امریکی ہیں، جن میں ایک خاتون شینن واکر اور ایک سیاہ فام امریکی وکٹر گلوور بھی شامل ہیں۔ مشن کے چوتھے رکن جاپان کے سوئیچی نوگوچی ہیں۔

وکٹر گلوور اسپیس اسٹیشن پر چھ ماہ کا عرصہ گزارنے والے پہلے سیاہ فام خلاباز ہوں گے جبکہ سوئیچی نوگوچی نجی خلائی پرواز پر مدار میں جانے والے پہلے غیر امریکی ہیں۔

Nach Flug mit Raumschiff: Vier Astronauten an ISS angekommen
تصویر: NASA-TV/AP/dpa/picture alliance

خلابازوں کی اس ٹیم کو اسپیس اسٹیشن تک پہنچنے میں ستائیس گھنٹے لگے۔ مشن کے امریکی کمانڈر مائیک ہاپکنز کا کہنا ہے کہ زمین سے خلا کا یہ سفر زبردست رہا۔ انہوں نے وہاں پہنچنے پر کہا، '' ہم اس عظیم مہم کا حصہ ہونے پر بہت خوش ہیں اور آئندہ چھ ماہ کے لیے پُرامید ہیں۔ ہم اپنا کام جلد شروع کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اس سفر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ خلاباز کسی نجی کمپنی کی کمرشل پرواز کے ذریعے اسپیس اسٹیشن پہنچے ہیں۔ اس مشن کے لیے جو 'فیلکن‘ نامی راکٹ اور 'ڈریگن‘ کیپسول استعمال کیا گیا اسے کیلی فورنیا میں قائم کمپنی اسپیس ایکس نے تیار کر کے امریکی خلائی ادارے ناسا کو فروخت کیا۔

ناسا نے اسپیس ایکس کے ساتھ اس طرح کی مزید پانچ خلائی پروازوں کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ ناسا اگلے چار سال یعنی سن دو ہزار چوبیس تک خلا میں کمرشل پروازوں پر آٹھ ارب ڈالر خرچ کرے گا۔

خلائی میدان میں اسے ایک نئے رجحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ماضی میں ناسا خود خلائی راکٹ اور کیپسول بناتا تھا یا پھر اس کام کے لیے روسی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا تھا۔

USA | Zweiter Startversuch für SpaceX «Falcon 9»-Rakete
تصویر: Getty Images/J. Raedler

لیکن اب جبکہ زمین کے نسبتاﹰ قریب خلائی دریافت کی کوششوں میں نجی کمپنیوں کو آگے آنے دیا جا رہا ہے، ناسا کا کہنا ہے وہ زیادہ دور تک جانے پر توجہ اور وسائل لگا سکتا ہے۔

اس کام میں دو کمپنیاں آگے آگے تھیں، جن میں دنیا میں ہوائی جہازوں کی بڑی کمپنی بوئنگ اور اسپیس ایکس کے درمیان مقابلہ تھا۔ لیکن بوئنگ کے پروگرام میں مشکلات آنے کے باعث اب اسپیس ایکس اس میدان میں بظاہر سبقت لے چکی ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ اسپیس لانچ ''سائنس کی طاقت اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم جدت، ذہانت اور ہمت سے کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس خلائی پرواز کو 'زبردست‘ قرار دیا۔

ش ج، ع ا (اے پی، اے ایف پی)