1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناسا خلا میں نامیاتی مرکبات کی تلاش میں

4 دسمبر 2018

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ڈیپ اسپیس میں نامیاتی مرکبات کی تلاش کے لیے اوزیرس ریکس کو ایک ایسے شہابیے کے قریب پہنچا دیا ہے، جس پر نامیاتی مرکبات کی موجودگی کا شبہ ہے۔

https://p.dw.com/p/39PLt
NASA Robot Explorer Osiris-Rex
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/C. Meaney

کہا جا رہا ہے کہ کسی بلندو بالا عمارت کے برابر اس خلائی چٹان پر نامیاتی مرکبات موجود ہو سکتے ہیں اور آئندہ ایک سو پچاس برس میں اس کا زمین سے ٹکرانے کا امکان بھی ہے۔

اوزیرس ریکس کو ستمبر 2016ء میں اس مشن پر روانہ کیا گیا تھا اور یہ اگلے سات برس تک بینو نامی خلائی چٹان کا قریبی مشاہدہ جاری رکھے گا اور اس کی سطح سے نمونے اور دیگر مواد حاصل کر کے واپس زمین پہنچے گا۔

سات برسوں کی تحقیق کے بعد ناسا کا ریسرچ جیٹ مریخ پر پہنچ گیا

چين خلاء ميں مصنوعی چاند کيوں بھيجنا چاہتا ہے؟

بینو ٹھوس مواد سے بنا کوئی ایک تہائی میل بڑا شہابیہ ہے اور سورج کے گرد قریب اتنے ہی فاصلے پر محوگردش ہے، جتنے فاصلے پر زمین۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس شہابیے پر کاربن سے بنے مرکبات موجود ہیں، جو نظام شمسی کی تخلیق کے وقت جتنے پرانے ہیں۔ زندگی کی ارتقا سے متعلق ایک اور اہم مرکب پانی بھی ممکنہ طور پر مالیکیولز کی صورت میں اس شہابیے میں مل سکتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اسی طرز کے شہابیے زمین کی پیدائش کے وقت زمین سے ٹکرائے تھے، جس کے تحت زمین پر پانی اور نامیاتی مرکبات پہنچے تھے، جو بعد میں زندگی کے آغاز کی بنیاد بنے۔ محققین کے مطابق بینو اس نظریے کو ثابت کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس سیارچے کے مطالعے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سائنس دانوں کے اعداد و شمار کے مطابق ایک بٹا ستائیس سو امکان یہ ہے کہ یہ شہابیہ اگلے ایک سو چھیاسٹھ برس میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے اور ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ناسا بینو کو زمین کے لیے خطرہ قرار دیے گئے ایسے شہابیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس فہرست میں 72 ایسی خلائی چٹانیں موجود ہیں، جو زمین سے ٹکرا جانے کا امکان رکھتی ہیں۔

اوزیرس ریکس ہر چھ برس میں زمین کے انتہائی قریب سے گزرتا ہے اور اس کی محوری گردش کے راستے پر فرق پڑتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سن 2020 تک اس سیارچے سے حاصل ہونے والے نمونوں کے بعد زیادہ بہتر انداز سے جانا جا سکے گا کہ بینو اگلے ڈیڑھ سو برس میں زمین پر کس انداز کے اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سن 2135 میں بینو زمین سے چاند سے زیادہ کم فاصلے سے گزرے گا۔ واضح رہے کہ چاند زمین سے فقط ڈھائی لاکھ میل کے فاصلے پر ہے۔

پیر کے روز اوزیرس ریکس اس شہابیے سے فقط بارہ میل دور تھا جب کہ دسمبر میں یہ خلائی جہاز اس سیارے سے ایک اعشاریہ دو میل کے فاصلے پر پہنچ جائے گا اور یہاں سے اس سیارچے کی ثقلی کشش کا دائرہ بھی شروع ہو جائے گا۔

بتایا گیا ہے کہ اس مقام سے خلائی جہاز نہایت آہستگی کے ساتھ اس سیارچے کے جانب بڑھے گا اور سیارچے کی سطح سے صرف چھ فٹ کے فاصلے سے اس خلائی جہاز کے روبوٹک بازو بینو کی سطح میں داخل ہو کر نمونے حاصل کرے گا۔ جولائی 2020ء میں بینو سے نمونے حاصل کرنے کے بعد اوزیرس ریکس دوبارہ زمین کے سفر پر روانہ ہو جائے گا۔

ع ت، ع ب (روئٹرز، اے ایف پی)