1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

ناروے منحرف روسی فوجی کو واپس ماسکو کے حوالے نہیں کرے گا

24 جنوری 2023

روس کی ایک نجی ملیشیا ویگنر کے لیے کام کرنے والا ایک سابق فوجی پناہ کی تلاش میں فرار ہو کر ناروے پہنچ گیا تھا۔ ناروے نے اسے اس کی زندگی کو درپیش خطرات کے پیش نظر سخت سکیورٹی میں رکھا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/4McXK
Russland Sankt Petersburg 2022 | PMC Wagner Centre
تصویر: Igor Russak/REUTERS

اوسلو میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے روس  کے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہوا ہے، جو ممکنہ طور پر 13 جنوری کو غیر قانونی طور پر اس ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے داخل ہوا تھا۔

یوکرین کے لیے امریکہ کا ڈھائی ارب ڈالر کا پیکج، تاہم ٹینک شامل نہیں

حکام نے اس کی شناخت آندرے میدویدیف کے نام سے کی ہے، جو روس کی بدنام زمانہ کرائے کی ملیشیا ویگنر گروپ کا ایک سابق رکن ہے۔ یہ ملیشیا گروپ یوکرین کے علاوہ افریقہ اور شام کے کئی علاقوں میں بھی سرگرم ہے۔

روس یوکرین میں ہارا تو ایٹمی جنگ شروع ہو سکتی ہے، میدویدیف

آندرے میدویدیف یوکرین میں جاری جنگ سے فرار ہو کر ناروے پہنچا تھا۔ وہاں اس نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی اور کہا کہ اگر اسے واپس روس بھیجا گیا تو وہاں اسے یقینی طور پر موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

'فوری ضروریات' پر امریکہ اور یوکرین کے فوجی رہنماؤں میں ملاقات

ناروے کے حکام نے آندرے میدویدیف کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرنے کی کوشش میں ہیں کہ آیا میدویدیف غیر قانونی طور پر ناروے میں داخل ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق میدویدیف نے جب دیکھا کہ ویگنر گروپ کے ارکان کو ’احکامات کی نافرمانی‘ کے سبب بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے، تو اس نے دونوں ممالک کی درمیانی سرحد پار کر کے ناروے جانے کا فیصلہ کیا۔

آندرے میدویدیف کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ جب وہ شکاری کتوں سے بچ کر خار دار تاروں والی سرحد پار کر کے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا، تو روسی سرحدی محافظوں نے اس پر فائرنگ بھی کی تھی تاہم وہ کسی طرح بچ گیا تھا۔

26 سالہ میدویدیف نے ناروے میں داخل ہوتے ہی سیاسی پناہ کی درخواست کر دی تھی۔ ناروے میں اس کے وکیل برائنجلف ریزنس کا کہنا ہے کہ میدویدیف اور نارویجین حکام کے درمیان اس گھر کی حالت کے حوالے سے تنازعہ بھی پیدا ہو گیا ہے، جس میں اسے سخت سکیورٹی میں رکھا گیا ہے۔

تاہم ماسکو مخالف روسی گروپ ’گلاگو ڈاٹ نیٹ‘، جس نے اس روسی شہری کی فرار ہونے میں مدد کی، سے وابستہ ایک شخض ولادیمیر اوسیچکن کا کہنا ہے کہ میدویدیف کو ایک محفوظ گھر میں رکھا گیا ہے۔

Russland Norwegen Grenze l Schild am Damm des Wasserkraftwerks Borisoglebskaya
یدویدیف کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ جب وہ شکاری کتوں سے بچ کر خار دار تاروں والی سرحد پار کر کے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا، تو روسی سرحدی محافظوں نے اس پر فائرنگ بھی کی تھیتصویر: Lev Fedoseyev/TASS/dpa/picture alliance

البتہ ریزنس کا کہنا تھا، ’’وہ رضاکارانہ طور پر ایک محفوظ گھر میں رہ رہے ہیں۔ اور اگر وہ وہاں رہنے سے انکار کرتے ہیں، تو یا تو انہیں جانے دینا ہو گا یا پھر انہیں حراست میں لینا پڑے گا۔‘‘

ادھر ناروے میں امیگریشن پولیس کے جون آندریاس جوہانسن نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ حکام نے میدویدیف کو سزا کے طور پر نہیں بلکہ تحفظ کے لیے حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ملک بدر نہیں کیا جائے گا

آندرے میدویدیف نے عوامی سطح پر اپنے ملک بدر کیے جانے کے خدشات کا اظہار کیا ہے، تاہم ناروے کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کے ملک بدری کے امکانات ’صفر‘ ہیں۔

ناروے کی نیشنل کریمینل انویسٹی گیشن سروس، جو یوکرین میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات بھی کر رہی ہے، کا کہنا ہے کہ میدویدیف کو اب ایک ’گواہ کی حیثیت حاصل ہے‘ اور اس نے ناروے کے تفتیش کاروں سے بات بھی کی ہے۔

میدویدیف کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور اس نے گزشتہ برس جولائی میں روسی فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد روسی جیل میں کچھ وقت گزارا اور پھر ویگنر گروپ میں شامل ہو گیا۔ اس  کا کہنا ہے کہ اس کی رضامندی کے بغیر ہی ویگنر گروپ نے اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مدت میں چار ماہ کے توسیع کر لی تھی، جس پر اسے سخت اعتراض تھا۔

میدویدیف کا دعویٰ ہے کہ وہ ویگنر گروپ کے بانی اور اس کے مالک یوگینی پریگوزن کو ’سزا‘ دینا چاہتا ہے، جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ایک ارب پتی دوست بھی ہیں۔ میدویدیف کا کہنا ہے کہ پوٹن کے جنگی منصوبوں میں مدد کے لیے محاذ جنگ پر لوگوں کو مرنے کے لیے بھیجنے کے ذمہ دار پریگوزن ہی ہیں۔

اس نے گلاگو ڈاٹ نیٹ کے ساتھ فون پر ایک انٹرویو کے دوران کہا، ’’میرا مقصد سب سے پہلے اپنی جان بچانا تھا اور پھر لوگوں کو اور دنیا کو سچ بتانا۔‘‘

اگرچہ میدویدیف خود اپنے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ناروے کے حکام کے ساتھ ان جرائم کے بارے میں معلومات شیئر کرنے کو تیار ہے، جن کا اس نے مشاہدہ کیا۔

گلاگو ڈاٹ نیٹ کا کہنا ہے، ’’ہم میدویدیف کو بے گناہ نہیں کہتے۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت سے برے کام کیے ہوں گے۔ تاہم اس نے روشنی دیکھی ہے، اسے اس کا احساس ہو گیا ہے، وہ دنیا کے ساتھ، بین الاقوامی تحقیقات کے ساتھ اور ناروے کے حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ ویگنر اور پریگوزن کے خلاف زندہ رہ کر گواہی دینا چاہتا ہے۔‘‘

ویگنر گروپ یوکرین میں جاری جنگ کے دوران ہونے والی بعض انتہائی وحشیانہ لڑائیوں میں ملوث رہا ہے اور اس نے روس کی جیلوں کی وسیع تر آبادی سے اپنی تنظیم میں بھرتی کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔

ص ز / م م ( اے پی، روئٹرز)

یوکرین کا جرمنی سے مزید اسلحے کا مطالبہ