ناروے حملے، انتہائی دائیں بازو سے ممکنہ تعلق نئے سوالات
23 جولائی 2011روئٹرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں القاعدہ کے خطرے کے خلاف عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ یورپ میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ’مسلم مخالف‘ اور ’تارکین وطن مخالف‘ نطریات کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ایک نئے خطرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
روئٹرز نے اس واقعہ کو یورپ کے لیے ’اوکلوہاما سٹی‘ لمحہ قرار دیا ہے۔ اس سے مراد سن 1995ءمیں امریکی شہر اوکلوہاما میں پیش آنے والے وہ واقعہ ہے، جس میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک شخص Timothy McVeigh نے بارود سے بھرا ایک ٹرک ایک فیڈرل بلڈنگ سے ٹکرا دیا تھا۔ اُس واقعے میں 168 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
متعدد مغربی یورپی ممالک میں پولیس حکام انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے سے خائف ہیں۔ روئٹرز کے مطابق یورپ میں معاشی مشکلات کے شکار افراد میں، تارکین وطن مخالف اور مسلم مخالف نظریات کا ایک ’زہریلا آمیزہ‘ تیار ہو رہا ہے۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے مرکز میں بم دھماکے اور قریبی سیاحتی جزیرے میں نوجوانوں کے ایک کنونشن میں اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں مجموعی طور پر ہلاک شدگان کی تعداد 87 بتائی جا رہی ہے۔ اس واقعے کو مغربی یورپ میں سن 2005ء کے لندن بم دھماکوں کے بعد سب سے بڑی دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔
ہفتے کی صبح ناروے کے ایک ٹی وی چینل TV2 پر نشر ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حملوں کے الزام میں گرفتار کیا جانے والا ملزم ’مسلم مخالف‘ نظریات کا حامل ایک انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا شخص ہے۔ TV2 کے مطابق پولیس اس شخص کے گھر کی تلاشی بھی لے رہی ہے۔
لندن میں نیویارک یونیورسٹی سے وابستہ دفاعی امور کے ماہر Hagai Segal کے بقول، ’اگر حملہ واقعی انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شخص نے کیا ہے، تو یہ ایک بہت بڑی بات ہو گی۔ مغربی یورپ میں خصوصا اسکینڈے نیویا میں ایسا حملہ ایک انہتائی انوکھا واقعہ ہو گا۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان