1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے ایرانی صدر جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کریں، امریکا

6 اگست 2021

ابراہیم رئیسی نے ایران کے آٹھویں صدر کا حلف لینے کے بعد ملک کو مضبوط کرنے اور عالمی طاقتوں سے بات چیت کرنے پر زور دیا ہے۔ ادھر امریکا نے نئے صدر سے جوہری مذاکرات دوبارہ جلد شروع کرنے کو کہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ycQL
Iran Präsident Ebrahim Reisi
تصویر: ATTA KENARE/AFP/Getty Images

پانچ اگست جمعرات کو ابراہیم رئیسی کے ایران کے نئے صدر کا حلف لینے کے فوراً بعد امریکا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ ان پر جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہم ایران پر زور دیتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مذاکرات پر واپس آئیں تاکہ ہم اپنا کام جلد مکمل کر سکیں۔''

 ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر رئیسی کے لیے بھی، ''ہمارا وہی پیغام ہے جو ان کے پیشروؤں کے لیے ہوتا تھا۔ امریکا اپنی قومی سلامتی اور اپنے اتحادیوں کے مفادات کا دفاع کرے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایران اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سفارتی سطح پر معاملات کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔''

 امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تاہم کہا کہ بات چیت کا یہ، ''یہ عمل غیر معینہ مدت تک نہیں چل سکتا۔''

اس سے قبل پانچ اگست جمعرات کو ایران کی پارلیمان میں ابراہیم رئیسی نے اپنے ہاتھ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو ہاتھ میں لے کر ایران کے آٹھویں صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔  اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کو ختم کرانے کے لیے کسی بھی سفارتی منصوبے کی حمایت کریں گے۔

Iran Amtseinführung Präsident Ebrahim Reisi
تصویر: MIZAN

سخت گیر نظریات کے حامل ساٹھ سالہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی،حسن روحانی کے جانشین ہیں،جنہیں مغربی ممالک میں قدرے اعتدال پسند رہنما خیال کیا جاتا تھا۔ رئیسی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ آگے چل کر وہی 82 سالہ خامنہ ای کے جانشین بھی ہو سکتے ہیں۔

جوہری امور اور خطے میں ان کی پالیسیوں کے حوالے سے امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ حلف اٹھانے کے بعد ابراہیم رئیسی نے کہا، ''ایران کے خلاف عائد امریکا کی تمام غیر قانونی پابندیاں ختم ہونی چاہیں۔''

تاہم انہوں نے، ''سفارت کاری اور دنیا کے ساتھ وسیع تعمیری مذاکرات'' کو آگے بڑھانے کا بھی وعدہ کیا اور اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ علاقائی پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا ان کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح  رہے گی۔ انہوں نے کہا، ''میں دوستی اور بھائی چارے کے لیے تمام ممالک، بالخصوص پڑوسی ممالک کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔''

سفارتی کاری سے متعلق ان کا یہ بیان اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ ویانا میں تعطل کا شکار جوہری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور، ''ملک کی دفاعی حکمت عملی میں '' جوہری ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ 

Iran Amtseinführung Präsident Ebrahim Reisi
تصویر: Shafaghna

حلف برداری کی تقریب میں مقامی اور بہت سے بیرونی رہنماؤں کی موجودگی میں انہوں نے کہا کہ مقامی بحران کو بات چیت کے ذریعہ  حل کیا جا سکتا ہے اور بیرونی ممالک کی افواج کی موجودگی سے استحکام کے بجائے عدم استحکام کی ہی حوصلہ افزائی ہو گی۔

انسانی حقوق کی پاسبانی کا دعوی

جمعرات کے روز ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی نے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے ان کے خلاف تفتیش کا مطالبہ کیا۔ تاہم رئیسی کا دعوی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے سچے حامی ہیں اور اس کا فاع کریں گے۔ 

ابراہیم رئیسی کا سنہ 1988 میں عراق کے ساتھ ایران کی جنگ کے اختتام پر اجتماعی قتل عام اور پھانسیوں سے گہرا تعلق بتایا جاتا ہے۔ اس وقت رئیسی ڈپٹی پراسیکیوٹر ہوا کرتے تھے اور وہ بعض ایسی جیلوں کے پینل میں شامل ہوئے جن میں سیاسی قیدی بند تھے۔

ابراہیم رئیسی اور ان کے سربراہ آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ایک ریکارڈنگ سن 2016 میں لیک ہوئی تھی جس میں منتظری نے بڑی تعداد میں ہونے والی ان پھانسیوں کو ایران کی تاریخ کا سب سے بڑا مجرمانہ فعل قرار دیا تھا۔

عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس دوران مخالف گروپ کے تقریباً پانچ ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی جبکہ ایک دیگر مخالف گروپ مجاہدین خلق کا کہنا ہے کہ 30 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔حالانکہ ایران نے کبھی بھی ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور رئیسی نے بھی عوامی سطح

 پر اس میں اپنے کردار کو کبھی تسلیم بھی نہیں کیا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں