1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی پاکستانی حکومت میں کس کا اہم کردار ہوگا؟

21 فروری 2024

الیکشن، سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ کون حکومت بنا پائے گا اور کن افراد کا کردار اس میں اہم ہوگا۔

https://p.dw.com/p/4cheD
الیکشن، سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ کون حکومت بنا پائے گا اور کن افراد کا کردار اس میں اہم ہوگا۔
الیکشن، سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ کون حکومت بنا پائے گا اور کن افراد کا کردار اس میں اہم ہوگا۔

پاکستان میں رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

ان کے مابین یہ نئی ڈیل اس وقت کی یاد دلاتی ہے، جب 2022ء میں ان دونوں سمیت اس وقت اپوزیشن میں موجود دیگر جماعتوں نے اتحاد کر کہ عمران خان کو ایک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزیر اعظم کے منصب سے ہٹایا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس تازہ پیش رفت کے بعد آنے والے وقتوں میں پاکستان کی سیاست اور حکومت میں کون لوگ اہم کردار ادا کریں گے۔

شریف خاندان

شریف خاندان ان دو خاندانوں میں سے ایک ہے جو کئی دہائیوں تک پاکستان میں اقتدار میں رہا ہے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج سے قبل یہ خیال بھی کیا جا رہا تھا کہ ان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اس وجہ سے ان کی سیاسی جماعت، یعنی مسلم لیگ ن ہی عام انتخابات میں فاتح ہوگی۔

کیا پاکستانی انتخابات کے نتائج پہلے سے طے ہیں؟

لیکن واضح اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے اب ن لیگ پی پی پی کے ساتھ کی گئی ڈیل کے تحت ایک سیاسی اشتراک اور مخلوط حکومت کا حصہ ہوگی۔

اس معاہدے کے تحت ن لیگ کے شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب کے لیے نامزد کیا جائے گا اور انہیں اپنی جماعت کے علاوہ پی پی پی کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔

ن لیگ کے شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب کے لیے نامزد کیا جائے گا اور انہیں اپنی جماعت کے علاوہ پی پی پی کی بھی حمایت حاصل ہوگی
ن لیگ کے شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب کے لیے نامزد کیا جائے گا اور انہیں اپنی جماعت کے علاوہ پی پی پی کی بھی حمایت حاصل ہوگیتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

 تاہم الیکشن سے قبل یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شہباز شریف نہیں، بلکہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف اس اہم منصب کے لیے ن لیگ کا انتخاب ہوں گے۔ نواز شریف، جو الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے ہی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن سے پاکستان لوٹے تھے، تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی وطن واپسی کو ان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔

اب 2024ء کے الیکشن کے نتائج کے تناظر میں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اپنے بڑے بھائی کی نسبت وہ بہتر ثالث ہیں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ان کے فیصلوں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونا زیادہ آسان ہوگا۔

لیکن ساتھ ہی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے، تب بھی حقیقی طاقت و اختیار نواز شریف کے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے، تب بھی حقیقی طاقت و اختیار نواز شریف کے ہی ہاتھ میں ہوں گے
تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے، تب بھی حقیقی طاقت و اختیار نواز شریف کے ہی ہاتھ میں ہوں گےتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

بھٹو خاندان

ن لیگ سے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت پی پی پی کے آصف علی زرداری کو پاکستان کے صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

آصف علی زرداری سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر ہیں، اور ان کے بیٹےبلاول بھٹو زرداری نے بظاہر، بھٹو خاندان سے منسوب پی پی پی کی کمان سنبھالی ہوئی ہے۔

آصف علی زرداری پہلے بھی ایک بار پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں۔ 68 سالہ زرداری بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد صدر بنے تھے۔  اور انہیں ان پر سرکاری ٹھیکوں سے متعلق لگائے گئے الزامات سے منسوب 'مسڑ ٹین پرسنٹ' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

ن لیگ سے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت پی پی پی کے آصف علی زرداری کو پاکستان کے صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جائے گا
ن لیگ سے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت پی پی پی کے آصف علی زرداری کو پاکستان کے صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جائے گاتصویر: B.K. Bangash/dpa/AP/picture alliance

ان کو بدعنوانی، منشیات کی اسمگلنگ اور قتل سے متعلق الزامات میں دو بار جیل بھی بھیجا جا چکا ہے۔ تاہم ان کیسز میں انہیں آج تک باقاعدہ مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

پی پی پی اور ن لیگ کے درمیاں اس نئے اتحاد کے تحت نئی حکومت کے لیے مختلف وزارتوں کے لیے نامزد کیے گئے افراد کے ناموں کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی

جیل میں قید عمران خان اس بار الیکشن نہیں لڑ سکے
جیل میں قید عمران خان اس بار الیکشن نہیں لڑ سکےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

جیل میں قید عمران خان اس بار الیکشن نہیں لڑ سکے اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصافکو نہ صرف انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا، بلکہ ان کی پارٹی کے لیڈران کو قانونی کارروائیوں کا سامنا بھی رہا اور پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان بلے سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس طرح اس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کو مجبوراً بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔

ان تمام مشکلات اور عمران خان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ان آزاد امیدواروں کی تھی۔ تاہم یہ تعداد حکومت بنانے کے لیے ناکافی ہے۔

الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد پی ٹی آئی سے منسلک آزاد امیدواروں کی ہے
الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد پی ٹی آئی سے منسلک آزاد امیدواروں کی ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پی ٹی آئی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کر کہ اس کے کئی امیدواروں کو ہرایا گیا ہے۔

اب خواتین اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے اور حکومت بنانے پانے کی امید میں اس نے سنی اتحاد کونسل نامی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آؕئی سے منسلک آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی منظوری دے دیتا ہے، تو ان کی جانب سے عمر ایوب کو وزیر اعظم کے منصب کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

لیکن عام خیال یہی ہے کہ تب بھی اصل طاقت اور اختیار عمران خان کے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔

آزاد امیدوار اپنا وزیر اعظم بھی بنا سکتے ہیں کیا؟

م ا/ ک م  (اے ایف پی)