1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی: جی ٹوئنٹی سمٹ کا آغاز، اب افریقی یونین بھی رکن

9 ستمبر 2023

رکن ممالک میں یوکرینی جنگ سے متعلق اختلافات کے باعث اس مرتبہ جی ٹوئنٹی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ امریکی صدر نے بھارت کے لیے سلامتی کونسل میں ممکنہ مستقل نشست کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4W8mP
Indien | G20-Gipfel | Narendra Modi
تصویر: via REUTERS

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ہفتے کے روز نئی دہلی میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے آغاز پر اعلان کیا کہ اس گروپ نے افریقی یونین کو مستقل رکن بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اپنی افتتاحی تقریب میں مودی کا کہنا تھا، ''سب کی منظوری کے ساتھ، میں افریقی یونین کے سربراہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جی ٹوئنٹی کے مستقل رکن کے طور پر اپنی نشست سنبھالیں۔‘‘

بھارتی وزیر اعظم نے اس موقع پر افریقی یونین کے موجودہ چئیرمین اور جزائر کومورو کے صدر ازلی اسومانی سے مصافحہ بھی کیا۔

Indien | G20-Gipfel | Ursula von der Leyen und Narendra Modi
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی یورپی یونین کے کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین کا استقبال کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa/AP Pool/AP

افریقی یونین کو جی ٹوئنٹی میں شامل کرنے کے لیے رکن ممالک کی طرف سے بڑے پیمانے پر حمایت کی گئی تھی اور اب یہ اس تنظیم میں یورپی یونین کے بعد مستقل رکن بننے والا دوسرا علاقائی بلاک بن گیا ہے۔

جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

گروپ آف ٹوئنٹی یا جی ٹوئنٹی کی ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں کے رہنما ہفتے اور اتوار کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ملاقات کر رہے ہیں، جس میں میزبان ملک بھارت روس کے یوکرین پر حملے کے معاملے پر گہری جغرافیائی سیاسی تقسیم کے باوجود بین الاقوامی اتفاق رائے تلاش کر رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن، جرمن چانسلر اولاف شولس، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا سمیت کئی سربراہان مملکت و حکومت اس سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن اس اجلاس میں شریک نہیں  اور ان کی نمائندگی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کر رہے ہیں جبکہ چینی صدر شی جن پنگ کی نمائندگی وزیر اعظم لی چیانگ کر رہے ہیں۔

یہ سربراہی اجلاس افریقی یونین کی اس بلاک میں شمولیت کے مثبت پہلو کے ساتھ شروع ہوا۔ اس اجلاس میں تاہم  شریک تمام ممالک کے دستخطوں سے جاری ہونے والے روایتی اختتامی مشترکہ اعلامیے کا اجرا اس مرتبہ یوکرین کی جنگ سے متعلق شدید اختلافات کی وجہ سے شاید ممکن نہ ہو۔

Indien Neu Delhi | US Präsident Joe Biden und Narendra Modi vor dem G20-Gipfel
بھارتی وزیر اعظم اور امریکی صدر نے نئی دہلی میں جی ٹوئنٹی سمٹ سے قبل تنہائی میں ملاقات کی تصویر: India's PM Press Office/ UPI Photo/IMAGO

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جی ٹوئنٹی کے مذاکرات کار جمعے کے روز یوکرینی جنگ سے متعلق سربراہی اجلاس کے اعلان کے متن پر باہمی اختلافات دور کرنے میں ناکام رہے تھے۔ یہ صورتحال اس دو روزہ میٹنگ کے دوران کسی بھی بڑی ہیش رفت کو خارج از امکان بنا رہی ہے۔

فان ڈئر لاین کی مشترکہ اعلامیے کے لیے بیان کردہ شرائط

بھارت میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے آغاز سے کچھ دیر قبل یورپی یونین کے کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین  نے حتمی اعلامیے کی منظوری کے لیے شرائط بیان کر دیں۔ انہوں نے کہا، ''یہ ضروری ہے کہ ہم بنیادی اصولوں کو برقرار رکھیں، اس میں مثال کے طور پر یہ بھی شامل ہے کہ یوکرین میں ایک منصفانہ اور دیرپا امن ہونا چاہیے، سرحدوں کا احترام ہونا چاہیے اور یہ  کہ روس کی طرف سے الحاق کردہ یوکرینی علاقوں کو ان کی موجودہ حیثیت میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم ان بنیادی اصولوں کا دفاع کرتے ہیں اور انہیں بھی مکالمت میں شامل کیا جانا چاہیے۔‘‘ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا کوئی حتمی اعلامیہ جاری ہو سکےگا کیونکہ روس چین کے ساتھ مل کر یوکرین پر حملے کے باعث کی جانے والی تنقید کو اس اعلامیے کے متن میں شامل کیے جانے سے روکنا چاہتا ہے۔

Indien G20 Gipfel Neu-Delhi
جی ٹوئنٹی کے نئی دہلی سمٹ میں روس کی نمائندگی اس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کی تصویر: Amit Dave/REUTERS

بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونا چاہیے: بائیڈن اور مودی کا موقف

امریکی صدر جو بائیڈن نے نئی دہلی آمد کے فوری بعد اپنے میزبان وزیر اعظم نریندر مودی سے علیحدگی میں ملاقات کی۔ دونوں حکومتوں کے ایک مشترکہ بیان کے مطابق بائیڈن اور مودی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ممکنہ طور پر ایک نئے مستقل رکن ملک کے طور پر بھارتی خواہشات کی حمایت کی۔

سلامتی کونسل میں اب تک صرف پانچ مستقل ممبران ہیں، جن کے پاس ویٹو کا اختیار  ہے۔ ان ملکوں میں فرانس، برطانیہ، امریکہ، چین اور روس شامل ہیں۔ مودی کے واشنگٹن کے سرکاری دورے کے فوراً بعد بائیڈن کی نئی دہلی آمد کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے عالمی معاملات میں ایک ابھرتے ہوئے اور زیادہ جمہوری بڑے کھلاڑی کے طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کے ارکان کے سب سے طاقت ور ذیلی گروپ میں بھارت کو شامل کرنے کی سفارش کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق کی حفاظت اور امریکہ اور بھارت کی 'مشترکہ اقدار‘ پر بھی زور دیا گیا۔

ش ر ⁄  م م (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

بھارت جی 20 سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟