1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی حکومتی پالیسی، این جی اوز پریشان

عدنان اسحاق 31 دسمبر 2013

پاکستانی حکومت نے بیرونی تعاون سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے۔ ملک کے سماجی حلقوں کا مؤقف ہے کہ اِس طرح انسانی حقوق کے لیے کام کرنی والی تنظیموں کی کارکردگی متاثر ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1AjOx
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

حکومت کی نئی پالیسی کا اطلاق بیرونی تعاون سے چلنے والی ملکی این جی اُوز اور ملک میں موجود بین الاقوامی این جی اوز دونوں پر ہو گا۔ اس سلسلے میں دیگر ضوابط کے علاوہ ان این جی اُوز پر حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا بھی لازم ہو گا۔ انہیں ملنے والی امداد کا ذریعہ اور اپنے مجوزہ منصوبوں کی تفصیلات مہیا کرنی ہوں گی اور واضح کرنا ہو گا کہ یہ منصوبے کس علاقے کے لیے ہیں، ان پر لاگت کتنی آئے گی اور ان کا دورانیہ کیا ہو گا۔

Hilfspakete für Erdebebnregion Pakistan World Food Program
تصویر: AP

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی اس پالیسی کی منظوری دے چکی ہے۔ ان پالیسیوں کا اطلاق اس وقت تک رہے گا جب تک ’’ ریگولیشن آف فارن کنٹری بیویشن ایکٹ 2013ء" باقاعدہ قانون نہیں بن جاتا۔

پنجاب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ’ایس پی او‘ کے سربراہ سلمان عابد کو خدشہ ہے کہ بل کے پاس ہوتے ہی این جی اوز کو خوفزدہ کرنے کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ اُن کے بقول اس پالیسی کے مطابق پاکستانی کی خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف کسی بھی منصوبے کی منظوری نہیں دی جائے گی۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کونسا منصوبہ ملکی مفاد میں ہے اور کونسا نہیں۔ سلمان عابد کے بقول حکومت کو پالیسی تیار کرنے سے قبل متعلقہ افراد سے بھی بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ خفیہ سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت کے خدشات صحیح ہوں لیکن پورے سماجی شعبے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں ہے۔

پاکستان ملسم لیگ ’ن‘ کے سینیٹر طارق عظیم اس پالیسی کو تیار کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا کوئی خفیہ منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مالی تعاون فراہم کرنے والے غیر ملکی ادارے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ طارق عظیم نے یو ایس ایڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس ادراے نے لوگوں سے اُن کے منصوبوں میں بدعنوانی کے کسی بھی واقعے کی فوری طور پر اطلاع دینے کے لیے کہا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 16 سو غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم ہیں۔ ان میں اگر غیر اندراج شدہ تنظیموں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ زیادہ تر این جی اوُز تعلیم اور صحت کے شعبوں کے علاوہ غربت کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 11 فیصد سے زیادہ ہے اور 60 فیصد آبادی غریب ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق زچگی کے دوران ہر ایک لاکھ میں سے 276 بچے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ بچے اپنے پانچویں سالگرہ دیکھ نہیں پاتے۔ ناخواندگی کے اعتبار سے دنیا کے 221 ممالک میں پاکستان 180ویں مقام پر ہے۔

Charity Armenspeisung Frau Pakistan
تصویر: DW

عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے اسلام آباد حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت ہمیشہ ملک کے سماجی شعبے کو اسی طرح کے جابرانہ اقدامات کرتے ہوئے اپنے اختیار میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ’ن‘ کی حکومت سماجی تنظیموں کو دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایک وزیر نے تو این جی اوز کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیا تھا۔ طارق کے بقول اسلام آباد حکومت بھی سری لنکا کے صدر مہندا راجا پاکشے کی طرح غیر سرکاری تنظیموں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔