1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ن لیگ کی شکست: نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے

عبدالستار، اسلام آباد
18 جولائی 2022

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حیران کن کامیابی کے بعد ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں سیاسی بے یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں اور نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4EIpP
Pakistan Protestmarsch Islamabad
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

اس بے یقینی کا ایک اشارہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی طرف سے آیا جہاں انڈیکس میں پوائنٹس کافی حد تک گرے جب کہ ڈالر کے ریٹ بھی اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔

کئی ناقدین کے خیال میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہوگیا ہے، جس کا حل صرف فوری انتخابات میں ہے۔ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس بات سے متفق نظر آتی ہیں کہ ملک میں فوری طور پر انتخابات ہونے چاہئیں۔

حمزہ شہباز یا پرویز الٰہی: پنجاب کے ضمنی الیکشن میں فیصلے کی گھڑی

شہباز شریف حکومت میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، حلف اٹھا لیا

تابڑتوڑ بیانات

واضح رہے کہ کل تحریک انصاف نے جیت کے فورا بعد اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے فوری طور پر انتخابات کرائے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہیے اور آگے کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے، لیکن انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی سوال کیا تھا کہ مذاکرات کے لیے عمران خان کو کون راضی کرے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اب ملک کو انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔ انہوں نے حکومت کا نام لیے بغیر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی آسمان سے بات کرے اور ہم یہ سمجھیں کہ لوگ ہمیں ہار پہنائیں گے تو یہ غلط خیال ہوگا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے بھی موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔

 تاہم بعد میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے اس بیان کو ایک انفرادی عمل قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف ایک عہدیدار کا خیال ہے جو بار کے نقطہ نظر کی ترجمانی نہیں کرتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے آج تابڑتوڑ پریس کانفرنسز سے خطاب کیا اور تقریباﹰ تمام کانفرنسز میں ان کا مطالبہ انتخابات کا ہی تھا۔ اس کے علاوہ سابق وزیرداخلہ شیخ رشید نے بھی شہباز شریف حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسمبلی توڑ دیں۔

صلاح ومشورے اور رابطے

 صورتحال پر غور و فکر کرنے کے لیے نون لیگ نے بھی اپنا اجلاس طلب کیا جس میں ضمنی الیکشن میں شکست کی وجوہات پر غور و غوص کیا گیا جبکہ پی ڈی ایم کے تین سرکردہ رہنما سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی آپس میں ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ ملک میں سیاسی اجلاسوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس میں نہ صرف حکومت کی اتحادی جماعتیں اپنے اپنے طور پر اپنی پارٹیوں کا اجلاس بلا کر موجودہ صورتحال پر بات چیت کر رہی ہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنی کور کمیٹی کا اجلاس بلایا اور موجودہ صورتحال پر مشاورت کی۔

بجٹ ہنگامی آرائی میں پیش، کیا قوت خرید بڑھے گی بھی؟

 وفاقی حکومت کا چلنا مشکل ہے

سیاسی مبصرین کا خیال ہے پنجاب میں نون لیگ کی شکست کے بعد مرکز میں نون لیگ اور اس کے اتحادیوں کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ حکومت چلاسکیں۔

 لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے ہے کہ وفاقی سطح پر شہباز شریف کے لیے حکومت چلانا بہت مشکل ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان انتخابات سے وفاقی حکومت کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی ہے اور نون لیگ ایک ایسے وقت میں ملک پر حکومت کر رہی ہے جبکہ ملک کے چاروں صوبوں میں سے کہیں پر بھی اس کی اپنی حکومت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں شہباز شریف کے لیے حکومت چلانا بہت مشکل ہو جائے گا اور انہیں جلد یا بدیر نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑے گا۔‘‘

بیانیہ مقبول ہے

 یہ صرف حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی کچھ رہنما نہیں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں موجودہ سیاسی بحران کا حل نئے انتخابات ہیں بلکہ ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی کے کشور زہرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ان انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ، بھلے لوگ اس سے اختلاف رکھیں یا اتفاق کریں، عوام میں مقبول ہے اور عوام نے عمران خان کے اس موقف کو درست قرار دیا ہے کہ ان کو حکومت سے سازش کے تحت نکالا گیا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی وہ صورت حال ہے جو کسی دور میں ایم کیو ایم کی تھی۔ ایم کیو ایم اگر کھمبے کو بھی کھڑا کرتی تو عوام اس کو بھی ووٹ دیتے۔‘‘

حکومت پر الیکشن کے لیے دباؤ بڑھے گا

کشور زہرہ کے مطابق اب مرکز میں پی ایم ایل این کے لیے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ ''اسمبلی میں ویسے ہی قانون سازی کے لیے بہت ساری مشکلات درپیش ہیں۔ تقریبا آدھے ارکان اسمبلی سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں اسمبلی کو چلانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ابھی تک تو اسمبلی کے مشترکہ اجلاس بلاکر کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اب ایسا بھی کرنا آسان نہیں ہوگا اور حکومت پر ہر گزرتے دن کے ساتھ دباؤ بڑھے گا کہ وہ نئے انتخابات کی طرف جائے۔‘‘

نئے انتخابات اور الیکشن کمیشن

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ پارٹی نہ صرف نئے انتخابات چاہتی ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ چیف الیکشن کمشن کو ہٹایا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شہباز شریف کی حکومت اب بہارہ کہو سے لے کر زیرو پوائنٹ تک محدود ہوگئی ہے۔ ان انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس حکومت کو سازش کے تحت لایا گیا ہے اور اب ملک کو بحران سے نکالنے کا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے شہبازشریف مستعفی ہوں۔ نگراں حکومت قائم کی جائے۔ چیف الیکشن کمیشن مستعفی ہو، الیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل ہو اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔‘‘