1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں نے رات کے وقت ساتھیوں کی سسکیاں سُنیں‘

26 جون 2020

جرمنی میں گوشت کی کمپنی ٹوئنِیز کے ایک قصاب خانے میں رومانیا سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ ملازم نے ڈبلیو ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے یہ ملازمت کیوں بدلی۔

https://p.dw.com/p/3eKx5
Deutschland | Rund 400 Corona-Infektionen in Schlachtbetrieb in Rheda-Wiedenbrück
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen

بغیر معاوضہ اوور ٹائم، گرجتے برستے فور مین، کام کا بے تحاشہ دباؤ: جرمنی میں گوشت کی کمپنی ٹوئنِیز کے ایک قصاب خانے میں رومانیا سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ ملازم نے ڈبلیو ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے یہ ملازمت کیوں بدلی۔

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر گوٹرزلوہ کے ایک قصبے ریھدا ویڈینبرؤک کے ایک قصاب خانے میں رواں ہفتے کورونا کی وبا کے پھوٹنے کے سبب اس قصاب خانے کے کم از کم ڈیڑھ ہزار  ملازمین اس مہلک انفیکشن کا شکار ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں حکام نے فوری طور پر اس قصبے میں دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کردیا۔ ایک طرف اس لاک ڈاؤن کے نفاذ سے اس علاقے کے باشندوں میں ایک بار پھر مایوسی کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ وہ جرمنی میں مجموعی طور پر لاک ڈاؤن کے اُٹھنے سے یہ امید لگا رہے تھے کہ ان کی زندگی شاید آہستہ آہستہ معمول پر آ جائے۔ دوسری جانب اس قصاب خانے کے ملازمین پر کورونا وائرس کے حملے کی وجوہات کی چھان بین کے نتیجے میں کچھ تشویشناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔جرمنی: کورونا پھیلانے والے قصائی خانے تنقید کی زد میں

جرمن مذبحہ خانوں میں کورونا، غیر ملکی ورکرز کے لیے غیبی مدد؟

جرمنی: ایک اور قصائی خانے میں کورونا کیسز نکل آئے

اس پس منظر میں جرمنی کی گوشت کی کمپنی (Tönnies)  ٹوئنِیز کے ملازمین کے مسائل و مصائب پر اب میڈیا میں کُھل کر بات ہو رہی ہے۔ اس موضوع کو وفاقی جرمن پارلیمان تک میں زیر بحث لایا جا رہا ہے کیونکہ ٹوئنِیز کمپنی کا کاروبار پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے بیسیوں قصاب خانے ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں۔

اس کمپنی کے ایک سابق ملازم سے ڈوئچے ویلے نے پوچھا کہ ان کے کام کے اوقات کیا تھے اور کیا انہیں اوور ٹائم  کی اجرت ملتی تھی؟

ان کا کہنا تھا، ''میں نے ٹوئنِیز میں بطور فیکٹری ورکر دو سال کام کیا۔ ہماری ڈیوٹی تو آٹھ گھنٹے کی ہوتی تھی مگر ہمارا کام شاید ہی کبھی آٹھ گھنٹے میں ختم ہوسکا ہو۔ ہم اکثر ایک دن میں 12 سے 13 گھنٹے تک کام کرتے تھے۔ ہم اپنا اوور ٹائم ایک کاغذ پر درج بھی کرتے تھے۔ تاہم، آخر میں ہماری تنخواہ کی رسید پر  اوور ٹائم کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔

کام کے حالات
ڈوئچے ویلے کو ٹوئنِیز کمپنی میں کام کے حالات اور ملازمین کی صورتحال کی تفصیلات بتاتے ہوئے رومانیا سے تعلق رکھنے والے اس سابقہ ملازم کا کہنا تھا، ''وہاں شدید سردی اور نمی ہوتی تھی، فیکٹری میں کنویئیر بیلٹ پر گوشت کی مصنوعات بہت تیزی سے گھومتی تھیں۔ میں نے ساتھیوں کو رات کے وقت روتے ہوئے سنا کیونکہ وہ بہت درد میں ہوتے تھے، ان کے ہاتھ سوج جاتے تھے۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے اور صبر کی تلقین کرتے تھے۔‘‘
اس ملازم نے مزید بتایا، ''میرا ایک دوست مجھ سے ہر قت التجا کرتا کہ میں اُسے اپنے ساتھ جرمنی لے جاؤں، وہ واقعی رومانیا سے جرمنی آکر یہاں کام کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے پاس واپسی کے ٹکٹ کے لیے کچھ پیسے ساتھ ضرور رکھے۔ یہ ایک اچھا مشورہ تھا، کیونکہ ٹوئنِیز میں وہ ایک ہی دن کے بعد گھبرا کر رومانیا واپس چلا گیا۔‘‘

کارکنوں کی صورتحال کی جانچ پڑتال

ڈی ڈبلیو نے ٹوئنِیز کے سابقہ ورکر سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُس کی فیکٹری میں کوئی کنٹرولنگ کا نظام پایا جاتا تھا؟

اس کا کہنا تھا، ''جب کنٹرولر آتا تھا تو کنویئیر بیلٹ کی رفتار کم کردی جاتی تھی۔ پھر ہم کام کرنے والوں کے لیے تھوڑی آسانی ہو جاتی تھی۔ لیکن ہمیں پتا چل جاتا تھا کہ ہمارا کام تھوڑا سا ہلکا اس لیے ہوا ہے کہ کنٹرولنگ ٹیم آنے والی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنٹرولنگ غیر اعلانیہ کیوں نہیں کروائی جاتی تھی؟ تاکہ کنٹرولرز ہمارے کام کی اصل سختی دیکھ سکتے۔‘‘

اس بارے میں کہ کیا ورکرز یا ملازمین کو کنٹرولر کے دورے سے پہلے تیار کیا جاتا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، '' ہمیں پہلے ہی سے کہہ دیا جاتا تھا کہ تم سب نے اپنی زبان بند رکھنی ہے۔ کچھ نہیں بولنا۔ جب کنٹرولر آئے اور کچھ پوچھے تو کہہ دینا کہ تم لوگوں کو جرمن زبان نہیں آتی۔ حالانکہ ہم میں سے کچھ کارکن جرمن زبان  بول سکتے تھے۔‘‘

Deutschland Tönnies in Rheda-Wiedenbrück
جرمنی کی گوشت کی کمپنی (Tönnies)  ٹوئنِیز کے ملازمین کے مسائل و مصائب پر اب میڈیا میں کُھل کر بات ہو رہی ہے۔ تصویر: picture-alliance/dpa/Revierfoto

کارکنوں پر دباؤ  

جرمنی میں گوشت کی اس کمپنی کے ملامین کے ساتھ آجرین کے رویے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اس کمپنی کے سابقہ ورکر کا کہنا تھا، ''جب ہم بیمار پڑتے تھے تو ہمارے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا تھا۔  مالکین ہم پر چیخنا چلانا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ، ہمیں بیمار ہونے کی اطلاع نہیں ملنی چاہیے! ایک بار جب مجھے سخت  ٹھنڈ لگ گئی جس کے امکانات بہت زیادہ ہوتے تھے کیونکہ ہم ہمیشہ سردی میں کام کرتے تھے۔ میری بیماری پر میرا باس بری طرح ناراض ہوگیا اور مجھ پر چیخ رہا تھا، تب میری بس ہو چکی تھی۔ میں نے اُسی وقت کام چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘

ایسی جگہوں پر اعلیٰ افسران کون ہوتے ہیں؟

جرمنی میں مختلف طرح کے کام کرنے والے ورکرز کے اوپر ایک یا ایک سے زائد فورمین ہوتے ہیں جو براہ راست ہر کارکن کے ساتھ روز مرہ کے معاملات نمٹاتے ہیں۔ فورمین کے اوپر ایک اعلیٰ اہلکار فائض ہوتا ہے جو حتمی فیصلوں اور معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ گوشت کمپنی ٹوئنِیز  کے اس کارکن نے بتایا کہ اس کا بڑا باس ایک مقامی جرمن تھا لیکن روزمرہ کے معاملات کے لیے تمام کارکنوں کے اوپر فورمین تھے جو رومانیا کے باشندے تھے مگر یہ جرمن زبان سیکھ کر آئے تھے یعنی اپنے ملک میں اپنے اسکولوں میں ہی انہوں نے جرمن زبان سیکھ لی تھی۔ باقی تمام کارکن جرمن زبان میں نابلد تھے۔ یہ فورمین مترجم کا کام بھی انجام دیتے تھے۔ ان کے اعلیٰ افسران کی طرف سے انہیں یہ احکامات ملے ہوئے تھے کہ ان کارکنوں کی بیماری کی اطلاع اوپر تک نہ پہنچے۔ نہ ہی کارکنوں کی بیماریوں کو کاغذی طور پر ریکارڈ کیا جائے۔

رہائشی مقامات کے حالات

 گوشت کمپنی ٹوئنِیز کے لیے کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں کی رہائش گاہوں کی صورتحال کے بارے میں ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سابق ورکر کا کہنا تھا، ''کچھ رہائش گاہیں جن میں میں رہا، وہ بالکل صاف ستھری تھیں، لیکن ان میں کچھ استثناء تھیں۔ یہ رہائش گاہیں ہمیشہ بہت تنگ ہوتی ہیں، کبھی کبھی ایک اپارٹمنٹ میں 10 سے 12 یا کبھی کبھی 14 افراد بھی رہتے ہیں۔ ماہانہ کرایہ فی شخص 200 یورو تھا۔ عمارتیں ذیلی ٹھیکیداروں کی تھیں۔ مثال کے طور پر، رومانیا کے ایک ذیلی ٹھیکیدار نے بینک سے قرض لے کر رقم کو پوری عمارت خریدنے کے لیے استعمال کیا اور پھر اس کے اپارٹمنٹس مزدوروں کو کرائے پردے دیے۔ لیکن اتنے سارے لوگوں کو ایک اپارٹمنٹ میں رکھنا نہایت زیادتی ہے۔‘‘

ان مسائل کے بنیادی ذمہ دار کون؟

ڈوئچے ویلے نے پوچھا کہ کیا وہ ان حالات کا ذمہ دار ذیلی ٹھیکیداروں کو سمجھتا ہے؟ تو اس کا کہنا تھا، ''جی ہاں، میرا ایک دوست جرمنی کی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے اور اسے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ جب وہ کام پر جاتا ہے تو وہ ڈرتا نہیں ہے۔ کوئی بھی اس پر نہیں چلاتا، کوئی بھی اس کی توہین نہیں کرتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کام کے معاہدوں پر پابندی کے جرمنی کے قانون کو پارلیمنٹ میں منظور کرلیا جائے گا۔‘‘

ڈوئچے ویلے رومانیا کے اس کارکن کی شناخت سے واقف ہے تاہم وہ  نہیں چاہتا کہ اس کا نام شائع ہو۔ اب یہ کارکن جرمنی میں ایک دوسری  کمپنی میں کام کرتا ہے۔ اس کے مطابق اب وہ کام کے حالات سے مطمئن ہے۔

لاوینیا پیتو/ کشور مصطفیٰ / ع آ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید