1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں سب سے بڑے ایڈونچر کے لیے تیار ہوں‘

9 جولائی 2020

کچھ خواتین و حضرات چہل قدمی کر رہے تھے، کچھ بھاگ رہے تھے اور کچھ موٹی توندوں والے بابو ٹائپ حضرات وہاں لگے بینچوں پر سویرے سویرے ملکی سیاست پر تبصرے کرنے میں مصروف تھے۔

https://p.dw.com/p/3f14C
Mustansar Hussain
تصویر: DW/I. Ahmad

لیکن ماڈل ٹاؤن پارک کے اس جاگنگ ٹریک پر ہماری نظریں صرف مستنصر حسین تارڑ صاحب کو تلاش کر رہی تھیں، سچ پوچھیے تو میں اپنے بچپن کے 'چاچا جی‘ کی تلاش میں تھا، جن کی آواز کے ساتھ ہماری صبح ہوتی تھی۔

آنکھوں کی چمک آج بھی ویسی ہی تھی، جیسی پچیس برس پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن بڑھاپے کی چار دیواری میں گھری ان آنکھوں میں ہلکی سرخ ڈوریاں ماضی کی ان گنت جاگتی راتوں کا پتا دے رہی تھیں۔ 'پانامہ ہیٹ‘ کے نیچے سے سفید بال چمک رہے تھے، نیلے ٹراؤزر کے اوپر کیسری رنگ کی فلیس کی شرٹ، اَپر نارتھ فیس کا تھا، پاؤں میں جاگنگ شوز اور گلے میں سرمئی رنگ کا مفلر۔

وہ ایک ایسے کوہ پیما دکھائی دے رہے، جس کے پیچھے درجنوں سفرنامے، ناول اور ڈرامے تحریر کرنے والا لکھاری چھپا بیٹھا تھا۔ اس دن ان کے ایک پاؤں میں کچھ درد تھا اور وہ ایک نوجوان کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ ابھی گفتگو کا آغاز ہی ہوا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہم منہ ٹیڑھا میڑھا کرنے کے بجائے پنجابی میں ہی نہ بات کر لیں، میرے جبڑے ابھی سے درد کرنا شروع ہو گئے ہیں۔

گزشتہ شب ہی تارڑ صاحب سے بات ہوئی تھی اور انہوں نے کہا کہ صبح ماڈل ٹاؤن پارک آ جانا۔ نوشہرہ ورکاں سے صبح سویرے میں اپنے بھانجے اور بھتیجیوں کے ہمراہ لاہور کی جانب نکل پڑا۔ سردیوں کی صبح تھی، کھیتوں سے اٹھنے والی دھند سڑک پر تیرتی جا رہی تھی۔ گاڑی کی رفتار کبھی سست ہو جاتی تو کبھی تیز لیکن سبھی خوش تھے کہ ہم پاکستان کے نامور اور ہنس مکھ ادیب سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں، ہم اپنے چاچا جی سے ملنے جا رہے ہیں۔

خیر ان کے منہ سے پنجابی کا سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی۔ بات پنجابی سےشروع ہوئی اور چلتے چلتے پروفیسر موہن سنگھ تک پہنچ گئی۔ میں نے 'انبی دے بوٹے تھلے‘ نظم کاتذکرہ کیا تو وہ رک گئے۔

یار تم نے تو بہت سی یادیں تازہ کر دیں! یہ مجھے امریکا میں ایک سکھ دوست نے سنائی تھی، اس نےکہا تھا کہ وہ پندرہ برس پہلے امریکا آیا تھا اور تب سے یہ نظم اس کی جیب میں ہے، اس نے یہ سینے سے لگا کر رکھی ہوئی ہے۔ ہم ٹریک پر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس جگہ پر پہنچ گئے، جہاں پہلے ہی چند خواتین اور کچھ مداح ان کا انتظار کر رہے تھے۔ عمیر علی اپنی اہلیہ اور بچے کو لے کر خاص طور پر انہیں ملنے آئے تھے۔

تارڑ صاحب وہاں بیٹھی ایک لڑکی سے مخاطب ہوئے، آپ بھی پلیز کچھ تعارف کرا دیں!

جی السلام و علیکم۔

پھر تھوڑا سا وقفہ

سلام کے علاوہ بھی کچھ تعارف کرا دیں! ایک قہقہہ بلند ہوا!

یہ بتا دیں کی آپ ہیں کون، کہاں سے آئی ہیں؟ وہ اکثر مجھے کال بھی آتی ہے تو میں کہتا ہوں جی کون؟ جواب پھر ہوتا ہے! جی السلام و علیکم، میں پھر کہتا ہوں کہ بھائی بتا دیں آپ کون ہیں؟

خیر چند قہقہوں کے تبادلے کے بعد انہوں نے سب کو کہا کہ جس جس نے تصویر بنانی ہے میرےساتھ، بنا لے۔ اور یوں کافی دیر ان کے ساتھ تصاویر اتارنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ وہاں کرسیاں کم تھیں اور خواتین زیادہ۔ تارڑ صاحب نے کہا کہ سینیئر خواتین کو کرسیاں دے دیں، میں نے لقمہ دیا کہ خواتین میں سینیئر کوئی نہیں ہوتا۔

وہاں موجود ایک لڑکے نے اپنی کتاب پیش کی، مستنصر صاحب نے ورق گردانی کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ یہ کس بارے میں ہے؟

سر یہ اخلاقیات پر ہے، میں نے کچھ اچھے واقعات اور اقوال جمع کیے ہیں۔

یار یہ تو تم اپنے پاس ہی رکھ لو، میرے اخلاق بہت بگڑ چکے ہیں، اب ان کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں۔

وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنستے بھی رہے اور سب کو ہنساتے بھی رہے، کمیونیکشن کا فن جانتے ہیں، محفل کو جمانے اور یادگار بنانے کا ہنر آتا ہے۔ ان کے دوستوں کا گروپ دائیں جانب گول دائرے میں بیٹھا ہوا تھا لیکن تارڑ صاحب ہمارے ساتھ ہی بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے آواز دی! ڈاکٹر صاحب پلیز ذرا ادھر آئیں، پلیز صرف ایک منٹ کے لیے، میں کچھ سنوانا چاہتا ہوں آپ کو۔

میری طرف دیکھتے ہوئے، اچھا یار وہ موہن سنگھ کی نظم ذرا ان کو بھی سناؤ!

Mustansar Hussain
تصویر: DW/I. Ahmad

میں 'انبی دے بوٹے تھلے‘ سناتا گیا اور تارڑ صاحب ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہم آواز ہو کر واہ واہ کرتے رہے۔

نظم ختم ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب بولے، آپ ادھر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں، ادھر آئیں ہمارے پاس، انہوں نے آپ کی قدر کہاں کرنی ہے؟

تارڑ صاحب کہنے لگے کہ بچے کی ادائیگی اور انداز تو ہے۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر صاحب بولے کہ عسکری صاحب نے کچھ ناشتے کا بندوبست کیا ہے۔

آج کیا لائے ہیں؟

وہی کچھ سینڈویچ وغیرہ!

تارڑ صاحب کچھ دیر اپنے دستوں سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں زیادہ تر سیدھی رکھتے ہیں، جیسے ہم ریوالور کی شکل انگلیوں سے بناتے ہیں۔ لیکن جن انگلیوں نے ناولوں، ڈراموں، کالموں اور سفرناموں پر مشتمل پچپن سے زائد کتابیں لکھی ہیں، وہ اب بھی سست رفتار نہیں ہوئیں۔

بات چلتے چلتے بیوی کے ساتھ رومانس کی طرف نکل آئی۔ کہتے اب کیا رومانس کرنا ہے۔ ایک دن سُپر بلیو مون تھا، مجھے بہت اچھا لگا، میں گھر آیا تو بیگم سے کہا کہ دیکھو یہ کتنا خوبصورت۔کبھی تم بھی مان لو کہ میں تمہارا سُپر مون ہوں۔ تو کہنی لگی اب آپ مجھے کہہ رہے ہیں، جب ماننے والی بات تھی تب تو آپ دوسروں کے سُپر مون بنے ہوئے تھے۔ میں نے کہا، آپ نے تو میرے سارے رومانس کا ہی بیڑا غرق کر دیا ہے۔

اچھا تو امتیاز تم کہہ رہے تھے کہ تم نے کچھ سوال بھی کرنے ہیں، تو ابھی پوچھ لو۔

سر کچھ خاص تو نہیں ہیں لیکن دوران سفر کچھ ایسے واقعات جو آپ لکھ نا سکے ہوں؟

 ایسے واقعات میں ہونے ہی نہیں دیتا۔ اصل میں آپ کو لکھنے کا فن آنا چاہیے۔ آپ اخلاقی یا سیاسی لحاظ سے بُری سے بُری صورتحال کو بھی بیان کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس الفاظ ہونے چاہییں۔ میں نے بہاؤ میں جو کچھ لکھا ہے وہ کچھ لوگوں کو اب آ کر سمجھ آیا ہے۔ میں بہت کم چُھپاتا ہوں۔ کچھ چیزیں ہوتی ہیں، جو میں لکھنا پسند نہیں کرتا۔ میں یہ نہیں لکھوں گا مجھے ڈائریا ہو گیا اور میں لوٹا پکڑ کر اتنی مرتبہ غسل خانے گیا۔

اگر آپ کو دوبارہ کسی ملک جانا ہو تو کس ملک جائیں گے؟

 ملک کوئی بھی سوہنا یا خوبصورت نہیں ہوتا، وہاں کے باشندے خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کے رویے ہوتے ہیں، وہ لوگ ہوتے ہیں، جن سے آپ ملتے ہیں۔ اور صرف لوگ ہی نہیں وہاں کا لینڈ اسکیپ، صحرا، شجر سبھی چیزیں مشترکہ طور پر مل کر کسی جگہ کو خوبصورت بناتی ہیں۔ ملک خوبصورت نہیں ہوتے۔ اگر کسی خوبصورت ترین ملک میں آپ کو بدتمیز لوگ مل جائیں تو آپ اس سے نفرت کریں گے۔

ہاں اگر صرف لینڈ اسکیپ کی بات کی جائے تو افغانستان کی کیا ہی بات ہے، ابھی تک اوریجنل لینڈ اسکیپ ہے وہاں۔ باقی ملک بھی ہیں۔ میں نے کوئی پندرہ کتابیں اپنے شمالی علاقوں کے بارےمیں لکھی ہیں تو اس لینڈ سکیپ میں بھی کوئی خاص بات ہو گی ناں۔ لیکن ویسے مجھے اب کسی خاص ملک جانے کا شوق نہیں رہا۔ اب بس اپنے شہر اور اپنے گھر کی خواہش ہے۔

کیا ایڈونچر پسند کرنے والے مستنصر حسین کا سفر ختم ہو گیا ہے؟

نہیں، نہیں، نہیں، یہ سفر اس لیے ختم نہیں ہوا کہ موت کے بعد شروع ہونے والا سب سے بڑا سفر تو ابھی باقی ہے، سب سے بڑا ایڈونچر ابھی باقی ہے اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔ میرے خیال سے انسانی رویہ تبدیل ہو جاتا ہے، ایڈونچر ختم نہیں ہوتا۔ آپ کے ساتھ یہاں بیٹھا ہوا ہوں، آپ کا کیا خیال ہے، یہ ایڈونچر نہیں ہے؟ کونسا ادیب ایسے آ کر بیٹھتا ہے۔ آپ ساری ادبی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کونسی شخصیت ایسی ہے، جو ذرا مشہور ہو اور اس طرح باغ میں آ کر بیٹھی رہی۔

آپ کو مزے کی بات بتاوں۔ میں جناح باغ جایا کرتا تھا تو انتظار حسین صاحب بھی وہاں کبھی کبھار آیا کرتے تھے۔ اب میں اور انتظار صاحب رویے اور ثقافتی لحاظ سے دو مختلف کناروں پر تھے لیکن ہمارا پرندوں کے حوالے سے رویہ مشترک تھا۔

میں نے انتظار صاحب سے کہا کہ آپ کو پتا ہے یہاں ایک پرندہ میرا یار ہے اور میں اس سے باتیں بھی کرتا ہوں۔ وہ حیران ہوئے میں نے کہا چلیں آپ کو دکھاتا ہوں۔ وہاں ایک طرف چمگادڑیں بھی ہوتی تھیں، مجھے بہت اچھی لگتی ہیں، الگ آواز ہے، آپ کو فطرت کے قریب لے جاتی ہیں۔ تم نےکبھی چمگادڑیں دیکھی ہیں؟

جی سری لنکا میں دیکھی تھیں میں نے۔

اوئے پاکستان کی چمگادڑیں زیادہ خوبصورت ہیں یہ دیکھا کرو!

اچھا وہاں ایک پرندہ تھا، میں آواز دیتا تھا، تو وہ بھی واپسی جواب دیتا تھا۔ وہاں ایک میرے جاننے والے بھی تھے، واک کرتے تھے میرے ساتھ، انہوں نے اس وجہ سے میرے قریب آنا چھوڑ دیاکہ انہیں شک پڑ گیا کہ یہ بندہ پرندوں سے باتیں کرتا ہے اور ساتھ یہ بھی مشہور کر دیا کہ یہ ذرا سا ہلا ہوا ہے۔

خیر انتظار صاحب کو میں نے کہا کہ بتائیں آپ کے ساتھ کوئی پرندہ بات کرتا ہے۔ تو یہ سب کچھ ابھی تک ایڈونچر ہی ہے۔

چند برس پہلے 'ہارٹ اٹیک‘ کے بعد آپ نے کہا تھا کہ اب آپ کچھ مختلف لکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مختلف کیا ہے؟

 میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے اندر ابھی تک فل اسٹاپ نہیں لگ رہا۔ مطلب لکھ بھی بہت لیا ہے۔ لوگ بھی کہتے ہیں کہ اب بس کرو لیکن کچھ ہے جو میں ابھی لکھنا چاہتا ہوں۔ میری ایک مرتبہ اس حوالے سے بانو قدسیہ سے بھی بات ہوئی تھی۔ میں بانو آپا کی رائٹنگ کو اتنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن ان سے میری دوستی تھی۔ ان کا خواتین کے حوالے سے نظریہ کچھ مختلف تھا۔ بلکہ میرا بیٹا سلجوک، جو یو این او میں ہے، وہ لوگ وہاں ویمن ایمپاورمنٹ کے حوالے سے کچھ کر رہے تھے۔ تو بیٹے نے کہا کہ ابو ہم بانو قدسیہ کی تصویر لگانا چاہتے ہیں! میں نے کہا وہ تو اس کے خلاف تھیں، وہ تو کہتی تھیں کہ عورت کو مرد سے دس قدم پیچھے ہٹ کر چلنا چاہیے۔ لیکن خیر میں نے کہا لگائیں، میری اچھی دوست تھیں اور بہت نائس لیڈی تھیں۔

میں بھول گیا ہوں اب ہم بات کیا کر رہے تھے۔ ہاں تو وہ میری بیماری کی بات تھی۔ تب میری بیوی پہلی مرتبہ روئی میرے لیے، مجھے خوشی بھی ہوئی کہ چلو مرتے وقت ہی اسے میرا خیال تو آیا ہے۔ میرے بیٹے سمیر نے کچھ پڑھنا شروع کر دیا، تو اس وقت بہت قریب تھا میں موت کے۔

اس واقعے کے بعد آپ کی تحریروں میں تبدیلی آئی ہے، موت کا ذکر مسلسل ہونے لگا ہے؟

نہیں موت کا ذکر میں پہلے بھی کرتا تھا لیکن ظاہر ہے اب یہ میرا ذاتی تجربہ تھا۔ جب مجھے آپریشن کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو مجھے یوں لگا میری والدہ وہاں پہنچ گئی ہیں، سادہ سے کپڑے تھے، ویسے ہی جیسے ایک دیہات کی ماں ہوتی ہے۔ سنا تو ہوا تھا کہ مرنے سے پہلے آپ کو لینے والے آ جاتے ہیں۔ میں نے امی سے پوچھا کہ آپ کیا کر رہی ہیں تو انہوں نےکہا کہ میں تمہاری خیریت معلوم کرنے آئی ہوں۔ مجھے حوصلہ ہوا کہ چلو شکر ہے لینے نہیں آئیں۔

اس واقعے کے بعد آپ کا مذہب کی طرف رجحان بڑھا ہے؟

 نہیں، قطعی نہیں۔ میں آج بھی وہاں ہی کھڑا ہوں، جہاں چار برس پہلے کھڑا تھا۔ میں وہ ڈرپوک شخص نہیں ہوں، جو موت کو سامنے دیکھ کر تسبیح پکڑ لیتا ہے۔ جو میں ہوں، وہ میں ہوں، میں توبلھے شاہ کا مرید ہوں نا۔ میری نئی کتاب منطق الطیر جدید تصوف پر ہی ہے لیکن یہ خیالات میرےناول پکھیرو میں بھی ہیں۔

تو آپ محبت سے تصوف کی طرف آئے ہیں؟

 نہیں، یہ چیز ہمیشہ سے ہی وہاں تھی۔ یہ تصوف تو اب آ کر ہو گیا نا۔ اب تو ہر کوئی اسے بیچتا پھر رہا ہے، ہر کوئی بابا بننے کے چکر میں ہے۔ میں وہ نہیں ہوں، اس کی چھابڑی نہیں لگانی، مجھے بابا نہیں بننا۔ میری جو دو کتابیں ہیں، منہ ول کعبہ شریف اور غار حرا میں رات، مجھے بڑی کوشش کی لوگوں نے بابا بنانے کی لیکن میں بڑی مشکل سے بچا ہوں۔ اصل میں میں نفرت کرتا ہوں، جو میں نہیں ہوں، لوگ مجھے وہ سمجھیں۔


ایسے ہی ان گنت سوالات و جوابات کا سلسلہ چلتا رہا اور ہم وہاں کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ باتیں ختم نہیں ہو رہی تھیں لیکن انہوں نے کہا کہ جب دوبارہ پاکستان آؤ تو لازمی آنا۔ میں نے ایسے ہی چلتے چلتے پوچھ لیا کہ پہلی محبت آپ کو کب ہوئی؟ وہ مسکرائے، تم بہت ہی احمق ہو اگر سمجھ رہے ہو کہ میں تمہیں بتا دوں گا، ہم دونوں ہنس پڑے۔ لیکن ان کی جلتی بجھتی آنکھوں سے مجھے لگا کہ جیسے میں نے ماضی کے تالاب میں کوئی کنکر پھینک دیا ہو۔

میں دیکھا کہ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے کسی سے بھی ہاتھ ملانے سے گریزاں ہیں۔ شاید وہ اپنی صحت کے بارے میں اب زیادہ فکرمند رہتے ہیں۔