1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مین بُکر پرائز کی حقدار امریکی مصنفہ لِڈیا ڈیوس، ایک تعارف

24 مئی 2013

لندن میں پانچویں مین بُکر بین الاقوامی انعام کی حقدار قرار دی جانے والی امریکی مصنفہ لِڈیا ڈیوس بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور ان کی تخلیقات میں دنیا کے آج تک شائع ہونے والے مختصر ترین افسانچے بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/18dBg
تصویر: Fotolia/falcn

لِڈیا ڈیوس کو مین بُکر پرائز بدھ کی رات لندن میں ہونے والی ایک تقریب میں دیا گیا۔ وہ یونیورسٹی آف البنی میں تخلیقی تصنیفات سے متعلقہ علوم کی پروفیسر ہیں اور اپنی ان تحریروں کی وجہ سے خاص طور پر معروف ہیں جنہیں جریدے ’آبزرور‘ کے ادبی نقاد William Skidelsky نے ایسی تخلیقات قرار دیا تھا جن کے باعث ’اختصار کی نئی سرے سے تعریف ممکن‘ ہو جاتی ہے۔ لِڈیا ڈیوس ایک بہت ہی کامیاب اور جانی پہچانی مترجم بھی ہیں، جنہوں نے فرانسیسی ادیب مارسیل پروسٹ کی تخلیق Swann's Way کو فرانسیسی سے انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا تھا۔

اس کے علاوہ وہ فرانسیسی ادیب گسٹاف فلوبیرٹ کی شہرہء آفاق تصنیف ’مادام بوواری‘ کا ترجمہ بھی کر چکی ہیں اور یہ ادبی خدمات بھی ایک اہم وجہ تھیں کہ فرانسیسی حکومت نے انہیں نائٹ آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز کے اعزاز کا حقدار ٹھہرایا تھا۔

2009ء اور 2012ء میں اپنے ناولوں کے لیے مَین بکر پرائز جیتنے والی برطانوی ادیبہ ہلیری مانٹل
2009ء اور 2012ء میں اپنے ناولوں کے لیے مَین بکر پرائز جیتنے والی برطانوی ادیبہ ہلیری مانٹلتصویر: AP

لِڈیا ڈیوس کا کہنا ہے کہ یہ ان کی مارسیل پروسٹ کی عظیم ادبی تصنیف کو ترجمہ کرنے کی کوشش تھی جس دوران انہیں تخلیقی سطح پر پروسٹ کے بہت شہرت اختیار کر جانے والے لمبے لمبے جملوں کو فرانسیسی سے انگریزی زبان میں منتقل کرنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی انہیں ان کے اپنے بہت منفرد اور مخصوص انداز تحریر کے لیے تحریک بھی ملی۔

لِڈیا ڈیوس نے لندن میں مین بُکر پرائز حاصل کرنے کے بعد نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’دراصل ایسا پروسٹ کی ادبی تخلیق کو ترجمہ کرتے ہوئے ہوا کہ میں نے سوچا کہ کوئی کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟‘‘

لِڈیا ڈیوس کو پانچویں مین بُکر انعام کے ساتھ 60 ہزار برطانوی پاؤنڈ یا قریب 91 ہزار امریکی ڈالر کے برابر انعامی رقم بھی ملی۔ انہوں نے یہ انعام اور اس کے ساتھ دی گئی رقم وصول کرنے کے بعد کہا، ’’تب میں نے خود سے پوچھا کہ کوئی ادیب اپنی کسی ادبی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ کتنا مختصر رکھ سکتا ہے کہ وہ پھر بھی وہ سب کچھ کہنے میں کامیاب ہو جائے جو وہ کہنا چاہتا ہے اور قاری اسے پوری طرح سمجھ بھی سکے۔‘‘

اس امریکی مصنفہ کی لکھی ہوئی کہانیاں اگر لمبی ہوں تو وہ دو، تین یا پھر آٹھ یا نو صفحات پر بھی مشتمل ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان کی تحریر کردہ کہانیاں، جنہیں اردو میں افسانچے بھی کہا جا سکتا ہے، صرف ایک پیراگراف کی حد تک مختصر بھی ہو سکتی ہیں اور کئی واقعات میں تو صرف ایک جملے کی حد تک۔

2011ء میں مَین بکر پرائز جیتنے والے برطانوی ادیب جولین بارنز
2011ء میں مَین بکر پرائز جیتنے والے برطانوی ادیب جولین بارنزتصویر: dapd

لِڈیا ڈیوس نے آج تک صرف ایک ناول لکھا ہے لیکن وہ مین بُکر پرائز کے حصول کے لیے باقی نو ممکنہ حقدار مصنفین کو پیچھے چھوڑ جانے میں کامیاب رہیں۔ ان میں دو ایسے مصنفین بھی شامل تھے جن کی تحریروں پر ان کے اپنے آبائی ملکوں میں پابندی عائد ہے۔

اس کے علاوہ اس انعام کے لیے ڈیوس کے حریف ادبی امیدواروں میں ایک ایسی شخصیت بھی شامل تھی جو آج تک اس پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کی گئی سب سے کم عمر ادبی شخصیت تھی۔ یہی نہیں بلکہ ان مجموعی طور پر دس امیدواروں میں ایک نام ایسا بھی تھا جو اس انعام کے لیے دوسری مرتبہ شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان شخصیات میں اردو ادب کی انتہائی قد آور شخصیت اور عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب انتظار حسین بھی شامل تھے۔ یہ ادبی انعام ہر دو سال بعد کسی ایسے زندہ ادیب کو دیا جاتا ہے جس کی تخلیقات یا تو انگریزی میں ہوں یا جو ترجمے کی صورت میں انگریزی زبان میں دستیاب ہوں۔

لِڈٰیا ڈیوس کے بارے میں نقادوں کا کہنا ہے کہ وہ جوناتھن فرینزن، ڈیوڈ فوسٹر ویلیس اور ڈیو ایگرز جیسے مصنفین کی نسل کے تخلیق کاروں سے انتہائی متاثر ہیں۔

(mm / sks (Rueters