1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میری عمر آٹھ ہزار سال ہے‘، مالک جندلی

امجد علی20 مئی 2015

خانہ جنگی شام کو پُرزہ پُرزہ کیے دے رہی ہے۔ ان حالات میں اس ملک کے ایوارڈ یافتہ پیانو نواز مالک جندلی کو بھی اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ آج کل وہ دنیا بھر میں اپنے فن کی وساطت سے ’امن و آزادی‘ کا پیغام دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FT5w
Malek Jandali
امریکی شہریت کے حامل مالک جندلی جرمنی میں پیدا ہوئے لیکن آباؤ اجداد کے وطن شام کی محبت کے اسیر ہیںتصویر: AP

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے دبئی سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ مالک جندلی کو دنیا میں آئے چار عشرے ہی کیوں نہ ہوئے ہوں، اُن کا اصرار ہے کہ اُن کے اندر کسی قدیم زمانے کی موسیقی انگڑائیاں لیتی ہے۔ جندلی نے اپنے وطن کی کئی قدیم ترین دھُنوں کو پھر سے زندہ کیا ہے۔ اسی پس منظر میں وہ کہتے ہیں: ’’میری عمر آٹھ ہزار سال ہے۔‘‘ وہ امید کر رہے ہیں کہ وہ دنیا کے جس دورے پر نکلے ہوئے ہیں، اس کی وساطت سے وہ ’امن اور آزادی‘ کا پرچار کر سکیں گے: ’’میرا پیغام امن، اتحاد، انسانیت اور انصاف ہے۔‘‘

2014ء کے گلوبل میوزک ایوارڈز میں گولڈ میڈل جیتنے والے جندلی حالیہ چند برسوں کے دوران دورِ حاضر کے سامعین کے لیے اپنے وطن کی قدیم ترین دُھنیں کھوج کر لاتے رہے ہیں تاہم اب وہ کہتے ہیں کہ اُن کی نظریں مستقبل پر ہیں، اپنی موسیقی کے حوالے سے بھی اور اپنے وطن شام کے حوالے سے بھی، جہاں وہ پلے بڑھے۔

جندلی کی پیدائش جرمنی میں ہوئی جبکہ اُن کی پرورش وسطی شام کے شہر حمص میں ہوئی، جسے سرگرم کارکن ایک وقت میں ’انقلاب کا درالخلافہ‘ کہتے رہے ہیں۔ ذرا ہوش سنبھالا تو اسکالرشپ ملنے پر امریکا چلے گئے۔

مارچ 2011ء میں شام میں عوامی بغاوت شروع ہونے کے فوراً بعد بیالیس سالہ پیانو نواز اور موسیقار مالک جندلی نے وائٹ ہاؤس کے سامنے ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اُن کی اس ’جسارت‘ کو دیکھتے ہوئے شام میں حکومت کے حامی مسلح گروپوں نے حمص میں اُن کے گھر پر اُن کے بزرگ والدین پر حملہ کر دیا، جو بعد ازاں فرار ہو کر امریکا چلے گئے۔ جندلی کہتے ہیں کہ دراصل اس حملے سے اُنہیں ’موسیقی کی نرم طاقت‘ کو دریافت کرنے کی تحریک ملی۔

مالک جندلی دنیا کے مختلف ملکوں سے ہوتے ہوئے اب اپنے عالمی دورے کے وسط میں دبئی میں تھے، جہاں اے ایف پی نے اُن کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔ جندلی نے کہا: ’’شامی شہری بہت بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘

جندلی جانتے ہیں کہ صرف موسیقی زمینی حقائق کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی تاہم اُن کے خیال میں موسیقی کے نتیجے میں ’اشد ضروری انسانی امداد مل رہی ہے اور لوگوں کو ملک کے حالات سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے، جو کہ اس وقت بے انتہا ضروری ہے‘۔

اُن کی موسیقی سے سجا تازہ ترین البم ’سیریئن سِمفنی‘ تھا، جو اس سال جنوری میں ریلیز ہوا تھا۔ اِس کی موسیقی شامی عوام کے اُن نعروں سے متاثر ہو کر تخلیق کی گئی ہے، جو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران لگائے گئے تھے۔

Syrien Pianist Malek Jandali Archivbild 2010
مالک جندلی نے 2014ء میں گلوبل میوزک ایوارڈز کا گولڈ میڈل حاصل کیا تھاتصویر: Louai Beshara/AFP/Getty Images

اس دورے میں شامی عود نواز عبدالرحیم السیادی اور امریکی خاتون چیلو نواز لاؤرا میٹکاف بھی اُن کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اس دورے کا عنوان ’وائس آف فری سیریئن چلڈرن‘ رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ ملکوں میں اُنہیں سنسرشپ کی وجہ سے اس عنوان میں سے ’فری‘ کا لفظ حذف کرنا پڑا۔ یہ عنوان اُنہوں نے اُن شامی بچوں سے متاثر ہو کر رکھا تھا، جن سے وہ 2012ء میں شام میں اُس وقت ملے تھے، جب وہ آخری مرتبہ چھُپ کر غیر قانونی طور پر اپنے وطن گئے تھے۔

شام کی چار سالہ خانہ جنگی کے دوران دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں لیکن جندلی کہتے ہیں کہ ’مستقبل میں اُنہیں ایک کہیں زیادہ خوبصورت شام‘ نظر آ رہا ہے۔

مالک جندلی کے پاس امریکی شہریت ہے۔ وہ اپنی اس شہریت اور اِس سے جڑی آزادیوں سے ’محبت‘ کرتے ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ جذباتی طور پر بھی اور اپنی موسیقی کے اعتبار سے بھی وہ اپنے اجداد کی سرزمین شام سے جڑے ہوئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید