میرانشاہ کے قریب تازہ ترین ڈرون حملہ
29 نومبر 2013اس کی تصدیق آج جمعے کو پاکستانی انٹیلیجنس اہلکاروں نے کی۔ یہ حملہ اس امر کی تازہ ترین نشاندہی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین ڈرون حملوں کے سبب بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود واشنگٹن یہ سلسلہ بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
پاکستانی خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کیے گئے اس ڈرون حملے کا ہدف افغان سرحد کے قریب شورش زدہ پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ایک کمپاؤنڈ تھا۔ اس علاقے کو طالبان اور القاعدہ کا گڑھ اور عسکریت پسندوں کا ٹھکانہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے ایک مکان پر دو میزائل داغے گئے۔ اس
حملے میں ہلاک ہونے والوں کی فوری شناخت نہ ہو سکی تاہم سکیورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر ان کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا۔ اس واقعے کے بعد ابتدائی طور پر ان اہلکاروں نے اپنے نام مخفی رکھے جانے کی شرط پر کہا تھا کہ اس تازہ ترین امریکی ڈرون حملے میں پاکستانی طالبان کے ایک پنجابی گروپ کا ایک مشتبہ رکن مارا گیا ہے۔
امریکا کی طرف سے یہ ڈرون حملہ محض دو روز قبل پاکستان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق پاکستانی کرکٹر عمران خان کی طرف سے ایک ڈرون حملے کے دوران قتل میں ملوث مشتبہ فرد کے طور پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے نام کے انکشاف کے بعد کیا گیا ہے۔ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) پارٹی نے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کے ایک مدرسے پر گزشتہ ہفتے ہونے والے ڈرون حملے کے حوالے سے پولیس کو ایک خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہنگو کے ڈرون حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں متعین امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن اور سی آئی اے کے اسلام آباد اسٹیشن چیف، قتل اور پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے جیسی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ذرائع کے مطابق حقانی گروپ کے ایک اہم رہنما کے علاوہ پانچ دیگر افراد بھی گزشتہ ہفتے کے اس ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
تحریک انصاف ہی وہ پارٹی ہے جو پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے اطراف نیٹو سپلائی کا کام انجام دینے والے ٹرکوں کی آمد و رفت کو بلاک کیے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف کے اس اقدام کا مقصد امریکی ڈرون حملوں کے خلاف سخت احتجاج کا اظہار ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت بھی امریکی ڈرون حملوں کو ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے انہیں تنقید کی نگاہ سے دیکھتی ہے، تاہم وزیر اعظم نواز شریف اس وقت امریکا کے ساتھ کسی طرح کی نئی کشیدگی سے گریز کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ اس لیے بھی نہایت نازک ہے کہ حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں ماضی میں ہونے والے کم از کم چند امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کرتے رہے ہیں اور یہ کہ کسی نہ کسی سطح پر یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ گرچہ اسلام آباد کی طرف سے ان الزامات کی بارہا تردید کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں شمالی وزیرستان میں ہی ایک ڈرون حملے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کا سربراہ حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا، جس کے بعد طالبان نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔