1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں بڑے مظاہرے، شاہراہیں بلاک

17 فروری 2021

میانمار میں مظاہرین نے ینگون کی اہم شاہراہوں کو بلاک کر دیا ہے تاکہ فوجی دستوں کی نقل و حرکت محدود بنا دی جائے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ مظاہرے تشدد کی ایک نئی لہر کا باعث بن سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3pSoh
Myanmar Proteste nach Militärputsch
تصویر: AP Photo/dpa/picture alliance

بدھ کے دن میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں فوجی بغاوت کے مخالف ہزاروں مظاہرین نے گاڑیوں کی مدد سے سڑکوں کو بلاک کر دیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ شہر میں فوج کی نقل و حرکت کو محدود بنا دیا جائے۔ گزشتہ دنوں کے مقابلے میں ان مظاہرین کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے۔

اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے میانمار کے لیے نمائندہ خصوصی ٹام اینڈریو نے خبردار کیا ہے کہ ینگون میں فوجیوں کی تعیناتی اور نئے مظاہرے تشدد کی ایک سنگین لہر کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:  میانمار کی فوج: ریاست کے اندر ایک اور ریاست

ٹاہم اینڈریو نے کہا، ''مجھے خوف ہے کہ بدھ کے دن میانمار میں تشدد کا کافی زیادہ امکان ہے۔ اس دن سے زیادہ، جب یکم فروری کو فوج نے غیر قانونی طور پر سول حکومت کا تختہ الٹا تھا۔‘‘

مقامی میڈیا میں ایسی غیر مصدقہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ ان مظاہرین نے ٹرکوں اور نجی گاڑیوں کی مدد سے چین اور میانمار کو ملانے والے اہم شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا ہے۔

تازہ مظاہروں کی وجہ کیا ہے؟

یہ تازہ مظاہرے ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے ہیں، جب ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ فوج مقید جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف خفیہ طور پر مقدمہ شروع کر رہی ہے۔

سوچی کے وکیل کے مطابق نوبل امن یافتہ خاتون پر ایک نیا الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ایک قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس الزام کے تحت سوچی کے خلاف مقدمے کی کارروائی یکم مارچ سے شروع ہو گی۔

سوچی کے وکیل کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ سوچی کو منگل کے دن عدالت میں پیش بھی کیا گیا جبکہ اس سے قبل انہیں ان کی قانونی ٹیم سے نہ تو مشاورت کی اجازت دی گئی اور نا ہی ملنے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: امریکا نے میانمار کے فوجی رہنماوں پر پابندیاں عائد کردیں

جب یکم فروری کو ملکی فوج نے سوچی کی سول حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو سوچی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے پاس ایے واکی ٹاکیز تھے، جو رجسٹرڈ نہیں تھے۔

اقوام متحدہ، امریکا اور متعدد یورپی ممالک نے میانمار کی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت بحال کریں اور سوچی سمیت گرفتار کیے گئے دیگر حکومتی عہدیداروں کو رہا کریں ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

ع ب / ا ا / خبررساں ادارے

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج