میانمار: سُوچی کے صدر بننے کی راہ مسدود
25 جون 2015آئین میں ترمیم کے اس اہم بِل پر ووٹنگ ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب ملک میں انتخابات کو اب چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں۔ میانمار میں آئندہ عام انتخابات رواں برس اکتوبر یا نومبر میں منعقد ہونا ہیں۔
میانمار کی پارلیمان میں آئینی ترمیم پر ووٹنگ یونیفارم میں موجود فوجیوں اور ارکان پارلیمان کے درمیان تین روز تک جاری رہنے والی گرما گرم بحث کے بعد منعقد ہوئی۔ 2008ء میں اس وقت کی فوجی حکومت کی طرف سے تیار کردہ آئین کے مطابق کوئی ایسا شخص میانمار کا صدر نہیں بن سکتا جس کے بچے یا خاوند غیر ملکی ہوں۔ واضح رہے کہ سوچی نے ایک برطانوی شہری سے شادی کی تھی اور ان کے بچے بھی غیر ملکی شہری ہیں۔
مذکورہ ترمیم اگر منظور ہو جاتی تو ملکی فوج کو آئین میں کسی تبدیلی کو روکنے کے لیے حاصل ویٹو کا حق بھی ختم ہو سکتا تھا۔ موجودہ آئین کے مطابق فوج کو پارلیمان کی 25 فیصد نشستیں دیا جانا ضروری ہے، جس کی وجہ سے فوج کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی آئینی تبدیلی کو روک سکتی ہے۔ کیونکہ آئینی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ اسے پارلیمان میں 75 فیصد ارکان کی تائید حاصل ہو جس کے بعد ملکی سطح پر ریفرنڈم کا انعقاد کرایا جائے۔
2011ء میں فوجی جنتا کی براہ راست حکومت کے خاتمے اور اصلاحات کے بعد میانمار میں تشکیل پانے والی پارلیمان میں ابھی بھی حاضر سروس فوجی اور سابق جنرل چھائے ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق فوج اس بات پر تیار نظر نہیں آتی کہ پارلیمان میں حاصل اس کے اختیار میں مزید کوئی کمی کی جائے۔
مجوزہ ترمیم کو ’436 امینڈمنٹ بِل‘ کا نام دیا گیا تھا۔ ووٹنگ کے بعد پارلیمانی اسپیکر نے ایوان کو بتایا کہ اس بِل کے حق میں 388 ووٹ پڑے ہیں جو کسی آئین ترمیم کے لیے ضروری کُل 75 فیصد ووٹوں سے کم ہیں اس لیے یہ ترمیم منظور نہیں ہو سکی۔ اس ترمیم میں ایک شِق یہ بھی رکھی گئی تھی کہ آئینی ترمیم کے لیے ارکان پارلیمان کی تائید 75 فیصد سے کم کر کے 70 فیصد کر دی جائے۔
نتیجے کے اعلان کے بعد اپوزیشن لیڈر آنگ سان سُوچی نے میانمار کے عوام پر زور دیا کہ وہ امید کا دامن نہ چھوڑیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اپوزیشن رواں برس اکتوبر یا نومبر میں متوقع انتخابات میں ضرور حصہ لے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگر یہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوئے تو سوچی کی جماعت ’نیشنل لِیگ فار ڈیموکریسی‘ کی پارلیمان میں نشستوں میں اضافہ ہو گا۔