1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: تمام نوجوانوں کے لیے لازمی فوجی خدمات کا قانون نافذ

12 فروری 2024

میانمار کی فوجی جنتا نے تمام نوجوان مرد و خواتین کے لیے لازمی فوجی خدمات کا حکم نافذ کر دیا ہے۔ سن 2021 میں اقتدار پر قبضے کے بعد سے فوج کو ملک کے مختلف حصوں میں مسلح باغی فورسز سے تصادم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4cHcR
میانمار میں سن 2010 سے ہی فوج میں بھرتی کا ایک قانون برائے نام موجود تھا لیکن اب تک اسے نافذ نہیں کیا گیا تھا
میانمار میں سن 2010 سے ہی فوج میں بھرتی کا ایک قانون برائے نام موجود تھا لیکن اب تک اسے نافذ نہیں کیا گیا تھاتصویر: Aung Shine Oo/AP/picture alliance

میانمار کی سرکاری میڈیا نے اواخر ہفتہ کو بتایا کہ فوجی جنتا نے نوجوان مردوں اور نوجوان عورتوں دونوں کے لیے فوجی خدمات کو لازمی قرار دے دیا ہے۔

اب 18سے 35 سال کی عمر کے تمام مردوں اور 18سے 27 سال کی عمر کی تمام خواتین کو دو سال تک فوجی خدمات انجام دینا ہوں گا۔ جب کہ 45 سال کی عمر تک کے ڈاکٹروں جیسے ماہرین کو تین سال کے لیے فوجی خدمات انجام دینے کے خاطر طلب کیا جاسکتا ہے۔

میانمار میں سن 2021 میں آنگ سان سوچی کی سربراہی والی منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار سے معزول کرکے فوجی جنتا کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

میانمار: باغی گروپ اراکان آرمی کا سرحدی قصبے پر قبضے کا دعویٰ

سرکاری میڈیا نے مزید بتایا کہ نوجوان مردوں و خواتین کی لازمی فوجی خدمات کی مدت میں پانچ سال تک توسیع کی جاسکتی ہے۔

فوج کے ترجمان زاو من تون نے ایک آڈیو بیان میں کہا،"قوم کی حفاظت اور دفاع کا فرض صرف فوجیوں پر نہیں بلکہ تمام شہریوں پر ہے۔ اس لیے میں تمام لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس عوامی فوجی خدمات کے قانون پر فخر سے عمل کریں۔" انہوں نے نئے اقدامات کو "ملک کو درپیش صورت حال کی وجہ سے ضروری" قرار دیا۔

فوجی خدمات سے انکار کرنے والے لوگوں کو جیل میں ڈالا جاسکتا ہے اور انہیں اتنی مدت تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے جتنی مدت کے لیے فوج کو خدمات درکار ہیں۔

میانمار کے تقسیم ہو جانے کا خطرہ ہے، قائم مقام صدر

سرکاری بیان میں لازمی فوجی خدمات کے حوالے سے زیادہ تفصیل نہیں بتائی گئی ہے لیکن کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع جلد ہی "ضروری ضوابط، طریقہ کار، اعلانات کے احکامات، اطلاعات اور ہدایات جاری کرے گی۔"

گوکہ میانمار میں سن 2010 سے ہی فوج میں بھرتی کا ایک قانون برائے نام موجود تھا لیکن اب تک اسے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔

تین مختلف نسلی اقلیتی باغی گروپوں اور جمہوریت حامی جنگجووں نے پیپلز ڈیفنس فورسز کے نام سے ایک اتحاد قائم کرلی ہے
تین مختلف نسلی اقلیتی باغی گروپوں اور جمہوریت حامی جنگجووں نے پیپلز ڈیفنس فورسز کے نام سے ایک اتحاد قائم کرلی ہےتصویر: SOPA Images/Sipa USA/picture alliance

نسلی اقلیتی گروپ اور جمہوریت نواز جنگجو کی فوج کے خلاف مشترکہ اقدامات

سن 2021 میں اقتدار پر قبضے کے بعد سے میانمار کی فوج کو کئی دہائیوں میں شاید اس کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میانمار ایک ایسے ملک کے طورپر جانا جاتا ہے جو طویل عرصے سے عدم استحکام اور داخلی شورش کا شکار ہے۔

تین مختلف نسلی اقلیتی باغی گروپوں اور جمہوریت حامی جنگجووں نے "پیپلز ڈیفنس فورسز" (پی ڈی ایف) کے نام سے ایک اتحاد قائم کرلی ہے۔ فوج کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے پی ڈی ایف کے اراکین کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ گزشتہ اکتوبر کو انہوں نے ٹاٹ ماڈو (فوج) کے خلاف ایک مربوط کارروائی شروع کی، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے اور مختلف علاقوں پر باغی فورسیز نے اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے۔

کیا بھارت میانمار کی فوج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے؟

باغی فورسز نے کارروائی کا آغاز شان ریاست سے کیا۔ جسے میانمار کی مختلف مرکزی حکومتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑی مشکل سے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے اور جو پڑوسی ملک چین کے لیے میانمار کا منفعت بخش مشرقی داخلی دروازہ کہلاتا ہے۔

میانمار کی جلاوطن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں دفاعی پالیسی کو مستقبل میں وفاقی بنایا جانا چاہئے، جس سے اس کی پوزیشن نسلی اقلیتی جنگجووں کے لیے زیادہ قابل قبول ہو، جو کبھی اپنے علاقوں کی آزادی یا خود مختاری کے خواہاں تھے۔

فوجی جنتا کی جانب سے نوجوانوں کو لازمی فوجی خدمات کے لیے بھرتی کرنے کی افواہ کی وجہ سے بہت سے عام نوجوانوں نے سرحدی علاقوں کی جانب فرار ہونا شروع کردیا ہے۔

میانمار کی حکومتی فورسز کے جوان بڑی تعداد میں ایک ساتھ سرحد پار بھاگ گئے
میانمار کی حکومتی فورسز کے جوان بڑی تعداد میں ایک ساتھ سرحد پار بھاگ گئےتصویر: Zabed Hasnain Chowdhury/NurPhoto/picture alliance

میانمار فوج کی بنگلہ دیش کی سرحد پر پسپائی

میدان جنگ میں میانمار فوج کی جدوجہد اس ہفتے کے اوائل میں بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق علاقے پر واضح طورپر نظر آئی۔

باغی فورسز نے ایک سرحدی محافظ چوکی پر قبضہ کرلیا۔ اس کارروائی کی وجہ سے تین سو سے زیادہ فوجی اور سکیورٹی اہلکار، جن میں بہت سے زخمی بھی تھے، پناہ کی تلاش میں سرحد پار کرکے بنگلہ دیش بھاگ گئے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ میانمار کی حکومتی فورسز کے جوان اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ سرحد پار بھاگ گئے۔

حالیہ برسوں میں عام طور پر روہنگیا مسلمان میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مظالم سے بچنے کے لیے سرحد پار کرکے بھاگنے کی کوشش کرتے تھے۔

بھارت نے بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب جھڑپوں کے درمیان آٹھ فروری کو اعلان کیا کہ وہ میانمار کے ساتھ آزادانہ نقل و حرکت کے معاہدے کو ختم کررہا ہے۔

میانمار فوج کا طیارہ بھارتی سرحد میں حادثے کا شکار

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ یہ اقدام ملک کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے اور میانمار کی سرحد سے متصل بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کے آبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ معاہدے کو ختم کرنے کے عمل میں کچھ وقت لگے گا، تاہم ان کی وزارت نے اس دوران معاہدے کو فوری طور پر معطل کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔

میانمارکے مہاجرین کی پناہ گاہ بھارتی ریاست

ج ا/ ص ز  (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)