1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دے گا، تھین سین

16 جولائی 2013

میانمار کے صدر تھین سین نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس کے اختتام تک ملکی جیلوں میں قید تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بات اپنے پہلے دورہ لندن کے دوران کہی۔

https://p.dw.com/p/1988X
تصویر: Soe Than WIN/AFP/Getty Images

میانمار کے صدر تھین سین نے یہ بھی کہا کہ ملک میں نسلی فسادات بھی اگلے کچھ ہفتوں کے درمیان ختم ہو جائیں گے۔ میانمار کے سابق جنرل اور موجودہ صدر تھین سین کی جانب سے یہ بیان سن 2011ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاسی اصلاحات کی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔ ’’میں ضمانت دیتا ہوں کہ رواں برس کے اختتام تک میانمار میں کوئی بھی سیاسی قیدی نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے یہ بات لندن میں چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک سے خطاب میں کہی۔ انہوں نے کہا،’ہم ایک عبوری طرز پر کوشاں ہیں، جس میں گزشتہ نصف صدی تک میانمار میں رہنے والے فوجی اقتدار کے بعد جمہوریت کے لیے سفر ہے۔‘

Präsident von Myanmar Thein Sein im Gespräch mit dem britischen Premierminister David Cameron
ڈیوڈ کیمرون نے تھین سین سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیںتصویر: picture-alliance/dpa

تھین سین ملک میں حکومت اور ایک درجن سے زائد نسلی گروہوں کے درمیان جاری رسہ کشی کے حوالے سے بھی خاصے پرامید نظر آئے۔ واضح رہے کہ برما نے سن 1948ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ ’ہم اگلے کچھ ہفتوں میں ملک بھر میں جاری نسلی جھگڑوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میانمار میں گزشتہ 60 برس سے چلنے والی بندوق خاموش ہو جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ٹھوس گفتگو اور سمجھوتے کرنے کی ضرورت ہو گی مگر یہ ہونا ضروری بھی ہے۔

اس سے قبل برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے صدر تھین سین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ تھین سین نے کہا کہ اس سلسلے میں نسلی بنیادوں پر تشدد کرنے اور اسے ہوا دینے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ میانمار میں روہنگیا نسل مسلمانوں کے سلامتی اور حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت اقدامات کر ے گی۔

واضح رہے کہا میانمار میں روہنگیانسل باشندوں کے خلاف بدھ مذہب کے پیروکوں کی جانب سے حملوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور اب تک کئی سو افراد ان فسادات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔