مہاجرین کی آمد چار گنا تو جبری ملک بدری بھی دو گنا
20 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس کے دوران جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں سے کُل 20888 غیر ملکیوں کو جبری طور پر ملک بدر کیا گیا۔ 2014ء کے دوران جبری ملک بدر کیے جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد 10884 تھی۔
جرمنی کے ایک علاقائی روزنامے کے مطابق چالیس ہزار کے قریب غیر ملکی ایسے بھی تھے جو جرمنی سے رضاکارانہ طور پر واپس اپنے وطن چلے گئے۔ رپورٹوں کے مطابق رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے غیر ملکیوں کو کچھ مالی امداد بھی فراہم کی گئی۔
وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے نوّے فیصد غیر ملکیوں کا تعلق البانیا، کوسووو، سربیا اور مغربی بلقان کی دیگر ریاستوں سے تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر ساٹھ ہزار کے قریب غیر ملکی گزشتہ برس کے دوران جرمنی سے اپنے آبائی وطنوں کی جانب واپس چلے گئے۔
علاوہ ازیں غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو جرمن حکام کو کسی بھی قسم کی باقاعدہ اطلاع دیے بغیر جرمنی چھوڑ کر چلے گئے۔ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ’غائب‘ ہو جانے والے غیر ملکیوں کی ’مصدقہ تعداد شمار کرنا‘ ممکن نہیں ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق سب سے زیادہ (چوالیس سو) غیر ملکیوں کو جرمنی کی گنجان آباد وفاقی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے جبری طور پر ملک بدر کیا گیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق جرمنی کے صوبہ باویریا سے جبری ملک بدریوں کی تعداد 4195، ہیسن سے 2651 ہے جبکہ باڈن وُرٹمبرگ سے 2431 غیر ملکیوں کو جبری طور پر ملک بدر کیا گیا۔
مجموعی طور پر دو لاکھ ایسے غیر ملکی ہیں جنہیں قانونی طور پر جرمنی سے لازمی طور پر نکالا جانا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وفاقی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں قیام پذیر ہیں۔
لیکن جرمنی کی صوبائی حکومتوں کو جبری ملک بدریوں پر عمل درآمد کرنے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ غیر ملکیوں کو بیماری کے باعث ملک بدر نہیں کیا جا پاتا جب کہ کئی لوگ حکام کو ملتے ہی نہیں۔
ایسی ہی وجوہات کی بنا پر صوبہ سیکسنی کی وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ برس صوبے سے صرف 940 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جا سکا تھا۔