1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

مہاجرین کو یورپ اسمگل کرنے کے تین خطرناک راستے

12 مارچ 2022

ہر سال ہزاروں افریقی مہاجرین یورپ کے خطرناک سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور ان میں سے بے شمار راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اب اسمگلروں نے ان مہاجرین کو تیسرے راستے یعنی کنیری جزائر سے یورپ پہنچانے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/48OO6
Deutsche Organisationen retten Migranten im Mittelmeer
تصویر: Mission Lifeline/dpa/picture alliance

افریقی براعظم کے کنیری جزائر پر حاکمیت اسپین کی ہے۔ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے یہ جزائر پرکشش سیاحتی منزل ہیں لیکن افریقی براعظم کے لوگ ان جزائر سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔

اسپین:کینیری جزائز پر سترہ مہاجرین مردہ پائے گئے

اپنے اپنے ملکوں سے نکلنے کے بعد اب ان کی اولین منزل کنیری جزائر ہیں۔ کنیری جزائر تک پہنچنے کے لیے بھی بحر اوقیانوس کے سمندری راستے کے ذریعے کمزور کشتیوں سے سفر کیا جاتا ہے۔ اس کو ایک انتہائی خطرناک سفر قرار دیا جاتا ہے۔

Spanien I Los Cristianos I Migration auf den Kanarischen Inseln
یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہزاروں افریقی مہاجرین سمندری لہروں کی نذر ہو جاتے ہیںتصویر: AFP via Getty Images

یورپ پہنچنے کے افریقی مہاجرین کے تین روٹ

براعظم افریقہ کے وہ افراد، جو یورپ کا سفر اختیار کرتے ہیں، ان کا ایک راستہ نائجر، مالی اور الجزائر سے مراکش ہے اور پھر اس ملک سے بحیرہ روم کو عبور کر کے یورپ کی جانب سفر شروع کیا جاتا ہے۔

اس مناسبت سے دوسرا روٹ بحیرہ روم کا ہے۔ اس کے ذریعے پہلے لیبیا پہنچا جاتا ہے اور پھر وہاں سے مالٹا اگلی منزل ہوتی ہے۔ مالٹا سے افریقی مہاجرین ناقص کشتیوں پر سوار ہو کر اطالوی جزائر جیسا کہ لامپے ڈوسا یا سسلی کی جانب بڑھتے ہیں۔

اب تیسرا راستہ انسانی اسمگلروں نے کنیری جزائر کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ روٹ زیادہ تر مغربی افریقی ممالک کے مہاجرین استعمال کرتے ہیں۔

سمندر کے خطرناک راستے

ان مختلف روٹس کے ذریعے انسانی اسمگلر افریقی مہاجرین کو یورپ پہنچانے کی مہم جوئی کرتے ہیں اور اس دوران کشتیاں الٹنے کے بےشمار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہسپانوی امدادی تنظیم کامینانڈو فرونٹیراس کے مطابق سن 2021 میں کنیری جزائر سے یورپ کے سفر پر چار ہزار مہاجرین سمندری لہروں کی نذر ہوئے۔

کشتی کے انجن میں دھماکا، 45 تارکین وطن سمندر میں ڈوب گئے

انٹرنیشنل تنظیم برائے مہاجرین بھی ان روٹس کو افریقی مہاجرین کے لیے خطرناک اور جان لیوا قرار دیتی ہے۔ اس نے بھی ان سمندری راستوں پر سینکڑوں مہاجرین کے ہلاک ہونے کو رپورٹ کیا ہے۔

Infografik Flüchtlingsrouten Afika nach Europa EN
جنوری سن 2021 سے جنوری سن 2022 تک افریقی مہاجرین کی یورپ آمد کا جائزہ

ہسپانوی امدادی تنظیم شمال مغربی افریقی ممالک کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بحر اوقیانوس کا روٹ اس وقت انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال زیادہ ہے اور اس پر انسانی ٹریفکنگ کرنے والے اسمگلر غیر معمولی فعال ہیں۔

کامینانڈو فرونٹیراس نامی تنظیم کے مطابق سن 2021 میں تہتر کشتیاں بحر اوقیانوس کی شدید موجوں کو برداشت نہیں کر سکی تھیں اور ان کے الٹنے کے حادثات میں گیارہ سو سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ جو لاپتہ ہوئے ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا۔

سمندری راستوں کے خطرے سے مہاجرین آگاہ ہوتے ہیں

کنیری جزائر سے یورپ کا سفر اختیار کرنے والے ایک افریقی مہاجر ماڈالا تونکارا کا کہنا ہے کہ اس خطرناک سمندری سفر میں ان افراد کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا، جن کے ڈوبنے کی خبر عام نہیں ہوتی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خطرناک سفر میں بے شمار افریقی مہاجرین کی موت بھوک سے بھی ہو جاتی ہے اور کئی پیاسے مر جاتے ہیں۔

جرمنی میں تارکین وطن کے لیے میوزیم تعمیر کرنے کی منظوری

تونکارا کا کہنا ہے کہ مرنے کے امکان اور تمام خطرات کو جانتے ہوئے بھی افریقی ملکوں کے افراد یورپ پہنچنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور انہیں کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔

Spanien Migranten auf Gran Canaria
کنیری جزائر کے قریب سمندر میں سے بچائے جانے والے افریقی مہاجرینتصویر: Javier Bauluz/AP Photo/picture alliance

انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین کے مطابق سن 2020 کے مقابلے میں مہاجرین کی آمد میں معمولی سی کمی ضرور ہوئی ہے۔ ہسپانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق سن 2021 میں بائیس ہزار تین سو افریقی مہاجرین غیرقانونی طور پر ان کے ملک پہنچے تھے۔

افریقی مہاجر ماڈالا تونکارا کا کہنا ہے کہ اس جیسے افراد کا افریقی ملکوں میں کوئی مستقبل نہیں اور جو بھی شخص وہیں رہنے کو ترجیح دیتا ہے، تو اس سے مراد ایک غیر یقینی مستقبل کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہے۔

جرمن زبان سے ترجمہ

مارٹینا شوویکووسکی (ع ح، ا ا)