1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا بحران اور یورپی یونین میں ’اوربان-آئزیشن‘

5 جولائی 2018

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگری اور جرمنی کی حکومتیں مختلف آراء رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہ بیان برلن میں ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان سے ملاقات کے بعد دیا۔

https://p.dw.com/p/30tLn
Deutschland Berlin Viktor Orban und Angela Merkel
تصویر: Reuters/A. Schmidt

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے حوالے سے بتایا ہے کہ برلن اور بوڈا پیسٹ کی حکومتیں مہاجرین کے بحران سے نبرد آزما ہونے کی خاطر ’مختلف آراء‘ کی حامل ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان سے ملاقات کے بعد میرکل نے صحافیوں کو بتایا کہ اتنا آسان نہیں کہ یورپ مہاجرین کی صورتحال سے خود کو ’الگ‘ کر لے۔ میرکل کے مطابق ’پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر کارروائی کے حوالے سے بوڈا پیسٹ کا ردعمل ’ذمہ دارانہ‘ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

جرمن چانسلر کے کڑے ناقد ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے جمعرات کے دن اپنے دورہ جرمنی کے دوران انگیلا میرکل سے مہاجرین کی یورپی پالیسی پر گفتگو کی۔ اوربان مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر سخت اقدامات کے حامی ہیں۔ اس تناظر میں وہ یورپی پالیسی پر سمجھوتہ کرنے پر بالکل تیار نہیں۔ اسی وجہ سے جرمنی میں بھی قدامت پسند حلقوں میں ان کی پسندیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی یورپی یونین کی کچھ دیگر رکن ریاستیں بھی اوربان کے سخت گیر موقف کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

سرحد پار کرنے کی کوشش ’مہنگی‘ پڑ سکتی ہے

مہاجرین سے متعل سخت پالیسی کی وجہ سے ہی اوربان کی سیاسی پارٹی نے رواں برس اپریل میں ہوئے ملکی انتخابات میں بھی واضح برتری حاصل کی تھی۔ اوربان یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک متقفہ حکمت عملی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بالخصوص مسلم مہاجرین کی یورپ آمد سے یورپ کی روایتی مسیحی شناخت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

برلن حکومت نے تین برس بعد اوربان کو جرمنی کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ وہ ایک ایسے وقت میں برلن میں چانسلر میرکل سے ملے، جب انگیلا میرکل نے متعدد یورپی ممالک کے ساتھ مل کر مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر ایک ڈیل کو حتمی شکل دی ہے۔ ناقدین کے مطابق سخت دباؤ کی وجہ سے میرکل نے سمجھوتے بھی کیے ہیں۔

جرمن ہفت روزہ ڈیئر اشپیگل نے میرکل اور یورپی رہنماؤں کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میرکل کی نئی پالیسیوں میں ’اوربان ۔ آئزیشن‘ کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔ سن دو ہزار پانچ میں جب مہاجرین کا بحران عروج پر تھا، تب برسلز میں میرکل اور اوربان کے مابین سخت اختلافات کے باعث صورتحال انتہائی کشیدہ بھی ہو گئی تھی۔

جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل باویرین جماعت سی ایس یو کے رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اوربان کی پالیسیوں کی حمایت بھی کی تھی۔ اگرچہ زیہوفر اور میرکل کے مابین اختلافات بظاہر دور ہو گئے ہیں لیکن ناقدین کے مطابق یورپی یونین کی سطح پر دائیں بازو کی سیاسی طاقتیں مضبوط ہوئی ہیں اور اب انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں رہا ہے۔

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان بدستور اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ یورپی ممالک کی سرحدوں کی نگرانی کڑی بنانا چاہیے۔ تاہم دوسری طرف انگیلا میرکل کی طرف سے اوربان پر کی جانے والی تنقید کی شدت میں کمی نوٹ کی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یورپ بھر میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے عوامیت پسندی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں اضافہ بھی ہے۔

جرمنی میں بھی عوامیت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس کے الیکشن میں مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) نے حیرت انگیز طور نہ صرف پہلی مرتبہ جرمن پارلیمان میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی، بلکہ یہ جماعت اب وفاقی پارلیمان میں تیسری بڑی سیاسی جماعت بھی ہے۔ یوں واضح ہوا تھا کہ جرمن عوام کے کچھ حلقے میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے مطمئن نہیں رہے۔

دوسری طرف انگیلا میرکل خبردار کر چکی ہیں کہ مہاجرین کا بحران اور اسے نمٹنے کی حکمت عملی ہی یورپ کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ ان کا اصرار ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی سطح کی پالیسی ناگزیر ہے اور اگر رکن ریاستوں نے اس حوالے سے یک طرفہ اقدامات کریں گے تو اس سے یورپی یونین میں تقسیم بڑھ جائے گی۔

ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید