1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پانچ لاکھ اضافی ہلاکتیں ہو سکتی ہیں

افسر اعوان3 مارچ 2016

موسمیاتی تبدیلیاں عالمی سطح پر کھانے پینے کی عادات پر بھی اثر انداز ہوں گی اور ان کے باعث پیدا ہونے والے دل کے امراض، کینسر اور اسٹروک جیسی بیماریوں کے سبب 2050ء میں نصف ملین سے زائد اضافی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1I6TF
تصویر: Getty Images/AFP/N. Duarte

یہ اندازہ ماہرین کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ برطانیہ کے معروف طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں بدھ دو مارچ کو چھپنے والی ماہرین کی ایک اسٹڈی کے مطابق سیلابوں اور بہت زیادہ گرمی کی لہروں جیسے شدید موسموں کے باعث فصلوں اور پیداوار پر بھی اثرات مرتب ہوں گے جس کے باعث خوراک کی دستیابی میں اضافے کے جو اندازے لگائے گئے ہیں وہ ایک تہائی حد تک کم ہو جائیں گے۔

اس اسٹڈی کے مطابق انہی اسباب کے باعث فی دن، فی کس دستیاب کیلوریز میں 99 کیلوریز کی کمی واقع ہو جائے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیداوار میں کمی کے سبب پھلوں اور سبزیوں کے استعمال میں بھی اوسطاﹰ چار فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے جبکہ سرخ گوشت کے استعمال میں بھی 0.7 فیصد کمی متوقع ہے۔ اسٹڈی کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کے استعمال میں کمی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2050ء تک کم خوراکی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں سے دو گُنا ہو جائے گی۔

اس اسٹڈی کے مرکزی مصنف اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق مارکو اسپرنگمان کے مطابق، ’’خوراک کی دستیابی میں فی کس معمولی سی کمی بھی توانائی اور خوراک کی ترکیب میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ تبدیلیاں صحت پر بڑے اثرات کا سبب بنیں گی۔‘‘

اس تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں سال 2050ء میں 529,000 اضافی ہلاکتوں کا سبب بنیں گی۔ لیکن اگر یہ موسمیاتی تبدیلیاں نہ ہوتیں تو خوراک میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا اور جو 1.9 ملین اضافی جانیں بچانے کا سبب بنتا۔

NASA Aufnahme Deutschland Elbe
تصویر: NASA/J. Allen

مغربی پیسیفک اور جنوب مشرقی ایشیا میں کم آمدنی والے علاقے ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب متوقع طور پر ہونے والی تین چوتھائی اموات چین اور بھارت میں ہوں گی۔

اس تحقیق کے شریک مصنف اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہی تعلق رکھنے والے پیٹر اسکاربوروغ Peter Scarborough نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’حالیہ صورتحال کے مقابلے میں اصولی طور پر 2050ء میں کافی خوراک موجود ہونی چاہیے جو ہر ایک کے لیے مناسب حد تک دستیاب ہو لیکن اگر اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات شامل کر دیے جائیں تو آپ اس وقت تک خوراک کے حوالے سے ہونے والی بہتری کے کچھ حصہ ضائع کر چکے ہوں گے۔‘‘

بدھ کے روز شائع ہونے والی اس اسٹڈی کے مطابق یورپ میں سب سے زیادہ متاثر یونان اور اٹلی ہوں گے جہاں فی 10 لاکھ افراد 124 اور 89 اضافی ہلاکتیں ہوں گی۔ بوروغ کے مطابق، ’’ سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات میں کمی لا سکتے ہیں۔‘‘