1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان میں ’آم کی فصل خراب کر دی‘

31 مئی 2024

صوبہ سندھ اور پنجاب میں کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ موسمی شدت اور کیڑوں کے حملوں نے آم کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ پیداواری نقصان پاکستان کی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4gUpC
  ٹنڈو الہ یار میں آموں کے ایک کاشتکار محمد یوسف خراب ہو جانے والے آم دکھاتے ہوئے
ٹنڈو الہ یار میں آموں کے ایک کاشتکار محمد یوسف خراب ہو جانے والے آم دکھاتے ہوئےتصویر: ASIF HASSAN/AFP

پاکستان میں آم کا پھل قومی سطح پر فخر کی ایک علامت اور انتہائی ضروری آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن رواں سیزن میں آم کے کاشتکار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید گرم درجہ حرارت اور حشرات کے حملوں کو بڑے پیمانے پر آم کی  فصل کے خراب ہو جانےکا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

غیر معمولی طور پر طویل سردیوں کے بعد عشروں میں اپریل کا مہینہ سب سے زیادہ بارشوں والا اپریل کا مہینہ رہا تھا اور اب ملک کو گرمی کی اس شدید لہر کا سامنا ہے، جس میں درجہ حرارت 52 ڈگری سیلسیس (126 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا ہے۔

ٹنڈو اللہ یار میں آم کے باغات میں درختوں سے پھل اتارتے مزدور
ٹنڈو اللہ یار میں آم کے باغات میں درختوں سے پھل اتارتے مزدورتصویر: ASIF HASSAN/AFP

کراچی سے تقریباً 200 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع گاؤں ٹنڈو الہ یار میں آموں کے ایک کاشتکار محمد یوسف نے موسم کی اس خرابی پر افسوس کا اظہار  کرتے ہوئے کہا، ''کونپلیں وقت پر پھوٹ نہیں سکیں اور بہت سی کلیاں  مرجھا گئیں۔ جو اگنا شروع بھی ہوئیں وہ بلیک ہوپر (کالی ٹڈی) کے حملے سے متاثر ہوئیں۔‘‘

'موسمیاتی تبدیلیوں نے تباہی مچا دی‘

 اپنی آدھی زندگی آم اگانے میں گزارنے والے اور اب 60 سال سے زائد عمر کے یوسف نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں نے تباہی مچا دی ہے۔‘‘ پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس کی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے۔

ٹنڈو غلام علی نامی ایک اور دیہات میں ایک کسان ارسلان نے 900 ایکڑ زمین پر آم کے باغات اگا رکھے ہیں۔ انہوں نے بھی اس ہفتے پھل اتارنا شروع کرتے ہی فصل کو پہنچنے والے نقصان کو محسوس کیا، ''ہمیں 15 سے 20 فیصد پیداواری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور فصل کی چنائی ابھی ابھی شروع ہوئی ہے، اس لیے نقصان کے ان  اعداد شمار میں یقیناً اضافہ ہوگا۔‘‘

کیڑوں کے 'بے مثال‘ حملے

اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''آم باہر سے پیلے ہو جاتے ہیں لیکن اندر سے کم یا زیادہ پک جاتے ہیں۔‘‘ ٹنڈو غلام علی ہی میں آم کے ایک اور کاشتکار اور برآمد کنندہ ضیاء الحق نے کہا کہ کیڑوں کے ''پھلوں پر متعدد حملے‘‘ اس سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ ایسی صورتحال  ہماری تاریخ میں اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘ کیڑوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے کیڑے مار ادویات پر خرچ کرنے کی وجہ سے لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

کاشتکاروں کے مطابق کیڑوں کے پے درپے حملوں نے بھی اس مرتبہ آم کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا ہے
کاشتکاروں کے مطابق کیڑوں کے پے درپے حملوں نے بھی اس مرتبہ آم کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا ہےتصویر: ASIF HASSAN/AFP

اس اضافے کی تصدیق صوبہ سندھ  اور پنجاب کے متعدد کسانوں نے کی ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ فصلوں کی کیڑوں سے حفاظت کرنے والے کیمیکلز اب ہر سال چھ سے سات بار استعمال ہوتے ہیں جبکہ تین سال پہلے یہ صرف دو بار  استعمال ہوا کرتے تھے۔

سندھ کے کسانوں نے کہا کہ وہ 2022 سے شدید گرمی کی لہروں کے بعد شدید سیلاب آنے کے بعد سے اپنی فصلوں کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ پنجاب کے کسانوں کا کہنا ہے کہ فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سلسلہ کئی سال پہلے کا ہے۔

آم کی پیداورا کو ریکارڈ نقصان کا سامنا

پاکستان فیڈریشن آف فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (PFVA) کے سربراہ وحید احمد نے کہا، ''پنجاب میں آم کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات 35 سے 50 فیصد تک اور سندھ میں 15 سے 20 فیصد تک ہیں۔‘‘ مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان نے  125,000 ٹن آموں کی برآمد کا منصوبہ بنایا تھا تاہم ان  میں سے صرف 100,000 ٹن ہی برآمد کرنے میں کامیابی مل سکی تھی۔

آَموں کی برآمد پاکستان کے لیے کثیر غیر ملکی زر مبادلہ کا ایک اہم زریعہ ہے
آَموں کی برآمد پاکستان کے لیے کثیر غیر ملکی زر مبادلہ کا ایک اہم زریعہ ہے تصویر: ASIF HASSAN/AFP

پاکستان میں آموں کی پیداوار ملک میں سب سے زیادہ پیدا ہونے والے پھل مالٹوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

 ناقص فصل سے ہونے والی آمدنی کا نقصان پہلے سے بدحال ملکی معیشت  پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی اپنی اقتصادی مشکلات کے مقابلے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرض حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ ٹنڈو غلام علی میں ایک 30 سالہ مزدور معشوق علی چاہتے ہیں کہ حکومت کسانوں کی مدد کرے۔

 انہوں نے کہا، ''زمیندار اس سال کم کمائیں گے اور یہاں تک کہ اگر انہوں نے ہمیں پچھلے سال جتنی ادائیگی کی بھی تو اتنی  مہنگائی میں  ہم اپنے خاندانوں کا پیٹ نہیں پال سکیں گے۔‘‘

ش ر⁄ اب ا (اے ایف پی)

وہ آم جو بہت خاص ہیں